پاکستانی سوشل میڈیا پر جمعرات کی شام کو بائیکاٹ بینک الفلاح ٹرینڈ کر رہا ہے۔
اس کی وجہ کچھ یوں ہے کہ ڈان اور بی بی سی سے تعلق رکھنے والے حیدر زیدی نے بدھ کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں فضیل تجمل نام کے ایک شخص کے سکرین شاٹ پوسٹ کیے تھے جن میں یہ صاحب اپنے سوشل میڈیا پر مسلسل دشنام طرازی میں ملوث دیکھے جا سکتے ہیں۔
حسن زیدی نے ان صاحب کے سکرین شاٹس پر چند ٹویٹس کرتے ہوئے بینک الفلاح سے سوال کیا کہ کیا وہ ایسے افراد کو اپنے بینک میں ملازمت پر رکھتے ہیں؟
فضیل تجمل کے لنکڈ ان پروفائل سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بینک الفلاح میں یونٹ ہیڈ کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
حس زیدی کے ٹویٹ کرتے ہی اور لوگوں نے بھی بینک الفلاح سے مطالبہ کیا کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔
اس پر آج بینک الفلاح نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا کہ ان صاحب کے خلاف مناسب ایکشن لیا گیا ہے۔ بینک کا کہنا تھا کہ بینک ذاتی حملے اور سخت زبان کو کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
اس پر ٹویٹر پر بائی کاٹ بینک الفلاح ٹرینڈ کر رہا ہے جس پر لوگ بینک کی جانب سے اس ایکشن پر سوال کھڑا کر رہے ہیں وہیں پہ سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے کہ کیا کسی کو محض گالیاں دینے کی پاداش میں نوکری سے برخاست کرنا ٹھیک اقدام تھا؟
سوشل میڈیا ویب سائٹ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا بینک کسی کو اس کے ذاتی سوشل میڈیا پر اختیار کیے گئے رویے پر نوکری سے نکال سکتا ہے؟
اس پر سوشل میڈیا صارفین اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والے فرحان ورک نے ٹویٹ کیا کہ بینک کی جانب سے اپنے ملازم کو دشنام طرازی پر ملازمت سے نکالنے کی مذمت کرنی چاہئے۔ بینک اسے وارننگ بھی دے سکتا تھا۔ یوں ملازمت سے نکالنے سے سیاسی تعصب کی جھلک دکھتی ہے۔
دبئی میں مسالہ میگزین کی ڈجیٹل ایڈیٹر اور سوشل میڈیا پر کافی سرگرم وی لوگر مہوش اعجاز نے بھی لکھا کہ بینک وارننگ دے کر چھوڑ سکتا تھا اور ساتھ ہی سوشل میڈیا سے متعلق اپنی پالیسی کو واضح کر دیتا۔
محسن حجازی نے لکھا کہ بینک کا اقدام ملازم کے عمل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گالی دینے سے وہ نقصان نہیں ہوتا جو کسی کی نوکری چلے جانے سے ہوتا ہے، خاص کر جب معاشی حالات اس قدر سخت ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ آزادی اظہار اور جمہوریت کے اصول صرف ان لوگوں کے لیےلاگو نہیں ہونے چاہیے جو ہمارے خیالات سے متفق ہوں۔
ہیومن ریسورس پروفیشنل وجیہہ حسین نے لکھا کہ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سخت سزا ہے انہیں سمجھنا چاہئے کہ سوشل میڈیا پر موجودگی آپ کی پروفیشنل پروفائل کا حصہ ہے۔ ریکروٹرز اور ہیومن ریسورس کے پروفیشنل ملازمین کو مسلسل یہ یاددہانی کرواتے رہتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر ذمہ داری برتیں۔ کمپنیاں ملازمین کی آن لائین موجودگی کو دیکھتی رہتی ہیں۔
ڈجیٹل حقوق کی کارکن نگہت داد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نہیں خیال کہ ابھی تک پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر نے سوشل میڈیا سے متعلق حکمتِ عملی متعین کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اظہار، ستم ظریفانہ جملوں، طنزو مزاح، تنقید اور متبادل نظریات کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ کا اظہار دوسروں کو نقصان پہنچانا شروع ہو جائے تو وہ آزادی اظہار کے زمرے میں نہیں آتا۔ گالی، گالی ہی ہوتی ہے۔ خصوصا جنس کی بنیاد پر گالم گلوچ آزادی اظہار میں نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی طرف سے آن لائین اسی ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے جس سوچ کے وہ عام زندگی میں حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے آن لائن اور آف لائن میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جاب سے نکالنا کوئی حل نہیں ہے، انہیں معطل کیا جا سکتا تھا، ایسی ٹریننگ دی جانی چاہئے کہ آن لائین ایسی زبان استعمال کرنے سے بینک کی ساکھ پر کیسے اثر ہو سکتا ہے۔