پنجاب حکومت نے مالی سال 2019-2020 کا بجٹ پیش کر دیا ہے بجٹ میں سترہ مختلف خدمات کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز دی گئیں ہیں۔
پنجاب کے نئے مالی سال کے بجٹ میں پروفیشنل ٹیکس کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت مختلف کاروبار ٹیکس کے دائرہ کار میں لائے گئے ہیں۔ جن میں ڈاکٹرز، حکیم، صراف، ٹھیکیدار، درزی اور حلوائیوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے کی تجاویز دی گئیں ہیں۔
پنجاب بجٹ کے خدوخال
صوبہ پنجاب کے بجٹ کا مجموعی حجم 23 کھرب ستاون کروڑ روپے ہے۔ جس میں ترقیاتی بجٹ کے لیے تین سو پچاس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
حکومت نے مختلف شعبہ جات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجاویز دی ہیں، جبکہ پہلے سے موجود پروفیشنل ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔
نئے مالیاتی سال کے فنانس بل میں چار نئی کیٹیگریز شامل کی گئی ہیں، جن میں فرنچائز، آتھورائزڈ ڈیلر، ایجنٹس اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، ڈاکٹرز، حکما، ٹھیکیدار، حجام کی دکانوں اور صرافوں پر پانچ ہزار روپے ٹیکس لگانے کی سفارشات کی گئیں ہیں۔
وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت نے بجٹ تقریر میں کہا کہ نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے حکومت کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ وزیر خزانہ نے نئے ٹیکسوں کی شرح کو اپنی بجٹ تقریر میں شامل نہیں کیا۔ تاہم محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکسوں کی شرح سے حکومت کو دس ارب سے زائد آمدن کی توقع ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'ہماری یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ پروفیشنلز کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ ایسا کرنے سے دیگر لوگوں کو بھی ٹیکس دینے کی ترغیب ملے گی۔'
نئے ٹیکس اور اپوزیشن کی تنقید
نئے مالی سال کے میزانیے میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور مختلف شعبوں پر ٹیکس لگانے کی حکومتی تجاویز کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز سمجھتے ہیں کہ مختلف شعبہ جات میں پرفیشنل ٹیکس لگانے اور پہلے سے موجود ٹیکسوں کی شرح کو دو ہزار سے بڑھا کر پانچ ہزار روپے کرنا سرا سر زیادتی ہے۔
حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ میں ایسا معاشی بحران پہلے کبھی نہیں آیا۔
حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ درزیوں، حجاموں، حلوائیوں اور مزدوروں پر ٹیکس لگا دیے گئے ہیں جو اس حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں کی عکاسی ہے۔'
پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی کہتے ہیں کہ حکومت نے عوام کو سبز باغ دکھائے تھے لیکن اس بجٹ میں نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی میں پسنے والے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسن مرتضٰی نے کہا کہ ملکی معیشت کا جو حال نیازی صاحب نے کر دیا ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ٹیکسوں کی شرح کیا ہے
نئے فنانس بل کے مطابق 25 ایکٹر تک ذرعی اراضی پر ٹیکس کی شرح ایک سو پچاس سے بڑھا کر تین سو روپے فی ایکڑ جبکہ پچاس ایکٹر تک ذرعی اراضی پر ٹیکس دو سو روپے سے بڑھا کر کر چار سو روپے فی ایکڑ کر دیا گیا ہے۔
نئے فنانس بل میں حکومت نے پنجاب ریونیو اتھارٹی کے دائر کار میں پانچ نئی سروسز شامل کرنے اور پندرہ سو روپے سے زائد فیس وصول کرنے والے ڈاکٹروں پر پانچ فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے۔ ٹیکس کے دائرہ کار میں آںے والے نئے شعبہ جات سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ تو پہلے ہی کئی گنا ٹیکس مختلف مصنوعات پر دیتے ہیں۔ حکومت ان ٹیکس تجاویز پر نظرثانی کرے۔