پاکستان کے صوبے پنجاب کے وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کی جانب سے صحافیوں کو آم کا تحفہ بھیجنے کی تفصیلات سامنے آنے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک فہرست گردش کر رہی ہے جس میں اُن صحافیوں کے نام درج ہیں جنہیں وزیر اعلٰی پنجاب نے بطور تحفہ آم بھیجے ہیں۔
سوشل میڈیا میں پنجاب حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کے دعوے کرنے والی حکومت خود اپنے ہی دعووں کی نفی کر رہی ہے۔
یہ معاملہ اس وقت مزید طول پکڑ گیا جب مبینہ فہرست منظرِ عام پر آنے کے بعد نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی' سے منسلک سینئر صحافی ارشد شریف نے یہ آم شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس بھجوا دیے۔
ارشد شریف نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ بھی کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والوں کو ایسے تحائف بھیجنے کی بجائے عوام کی غربت اور افلاس دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہارون رشید نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو آم بھیجنا غلط ہے لیکن اتنا بھی واویلا اچھا نہیں۔ سابق ادوار میں کروڑوں روپے صحافیوں کو رشوت کی مد میں دیے جاتے رہے ہیں۔
آفتاب قمر نامی ایک صارف نے لکھا ہے جب کشمیر کے مظلوم عوام بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے ایسے میں پاکستان میں وزیر اعلٰی پنجاب کی جانب سے بھیجے گئے آموں پر بحث جاری تھی۔
وزیر اعلٰی پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹر پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان آموں کا خرچ وزیر اعلٰی پنجاب نے خود برداشت کیا ہے۔ چند سو روپے مالیت کے یہ آم چند بڑے صحافیوں کو بھجوائے گئے ہیں۔ ان کے بقول اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اچھالنا زیادتی ہے۔
ڈاکٹر شہباز گل کا مزید کہنا تھا کہ عثمان بزدار کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور آم جنوبی پنجاب کی سوغات ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا تعلق سکھر سے ہے اور وہ تحفے کے طور پر کھجوریں جب کہ ندیم افضل چن کا تعلق سرگودھا سے ہے، وہ مالٹے بھیجتے ہیں۔
'آموں کا تحفہ پرانی روایت ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آم بھیجنے کی روایت نوابزادہ نصراللہ خان نے متعارف کرائی تھی۔
نوابزادہ نصراللہ خان کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے خان گڑھ سے تھا اور ان کے اپنے آم کے باغات تھے۔
سلمان عابد کہتے ہیں کہ یہ معمول کی بات تھی۔ اسے اتنا بڑا مسئلہ بنانا اور سوشل میڈیا پر زیر بحث لانا مناسب نہیں تھا۔
اُن کے بقول یہ کوئی سیاسی رشوت نہیں بلکہ ایک تحفہ ہے۔ اگر کوئی یہ تحفہ قبول نہیں کرنا چاہتا تھا تو نہ کرتا۔ لیکن اسے سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنانا نامناسب تھا۔