رسائی کے لنکس

'پنجاب میں تحریک انصاف وہ ریلیف نہیں دے سکی جس کے لیے عوام منتظر تھے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ برس اگست میں برسر اقتدار آئی تھی تو عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں جب کہ نئی حکومت نے بھی وعدے جلد پورے کرنے کا اعادہ کیا تھا۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور اُن کی کابینہ کے ارکان بار بار عوام کو حکومت کے پہلے 100 دن میں اپنی کارکردگی میں واضح فرق لانے کے دعوے کرتے نظر آئے تھے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عثمان بزدار اور اُن کی ٹیم اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کی نفی کرتی رہی ہے۔ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جہاں بھی گئے بھر پور پروٹوکول کے ساتھ جاتے رہے جب کہ تحریکِ انصاف انتخابات سے قبل اسی پروٹوکول کلچر کے خلاف تھی۔

وزیر اعلیٰ کی ٹیم میں دو مرتبہ تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آ سکے۔

عثمان بزدار کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو نے کے بعد تقریر
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:49 0:00

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بلدیاتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے دعوے تو کیے لیکن اب تک صرف قانون سازی کر کے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو اُن کے عہدوں سے ہٹانے کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔

'صوبہ چلانے کے لیے خزانے میں پیسے نہیں تھے'

پنجاب کے وزیر ہاؤسنگ اور تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما محمود الرّشید اپنی ہی حکومت کے ایک سال کو تو بہتر انداز میں بیان نہ کر سکے البتہ انہوں نے تسلیم کیا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت صوبے میں عوام کو وہ ریلیف نہیں دے سکی جس کے لیے عوام منتظر تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمود الرّشید نے کہا ہے کہ جب اُن کی حکومت پنجاب میں قائم ہوئی تو صوبہ چلانے کے لیے خزانے میں پیسے نہیں تھے۔ معیشت کی حالت بہت خراب تھی لیکن اُس کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ عوام کو 20-2019 کے میزانیے میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جا سکے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محمود الرّشید نے بتایا کہ خراب معاشی حالت کے باوجود اُن کی حکومت عوام کو سستے گھر فراہم کرنے کا وعدہ ضرور پورا کرے گی۔

محمود الرّشید کے مطابق معیشت بہتر ہوتی تو عوام کو ریلیف دے سکتے تھے۔

'حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی ختم ہوا'

پنجاب میں حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (قائدِ اعظم) سمجھتی ہے کہ جب سے پنجاب میں اُن کی حکومت قائم ہوئی ہے حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی ختم ہو گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں سرکاری دفاتر میں سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کی گئی۔ وزرا کا غیر ضروری پروٹوکول ختم کیا گیا جبکہ گورنر ہاوس لاہور کو عوام کے لیے کھولا گیا۔

مسلم لیگ (ق) کے رہنما مزید کہتے ہیں کہ اُن کی جماعت اور عمران خان کی سوچ ایک ہے۔ دونوں پاکستان کے غریب عوام کی بھلائی کے لیے سوچتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی ملک کو مزید استحکام کی ضرورت ہے تا کہ عمران خان جو کچھ غریب عوام اور ملک کے لیے کر رہے ہیں اُس پر عمل درآمد ہو سکے۔ اِسی لیے وہ خود بھی کہتے ہیں کہ تھوڑا صبر سے کام لیں اور تھوڑا وقت دیں۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ مشکل فیصلے ہو رہے ہیں ان مشکل فیصلوں کا فائدہ عام آدمی کو ہی ہو گا۔

'تحریک انصاف کی حکومت نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا'

دوسری جانب پنجاب میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان کہتے ہیں کہ حکومت اپنی کارکردگی کے باعث بتدریج کُھل کر عوام کے سامنے آ رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ملک احمد خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کے ساتھ جو وعدے کیے تھے اُن میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا بلکہ عوام کو مہنگائی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی معیشت سے متعلق پالیسیاں اور اصلاحات کا ایجنڈا ناکام رہا ہے۔

غریبوں کو گھر فراہم کرنے کے حکومتی وعدے کے متعلق انہوں نے کہا کہ 50 لاکھ گھر جھوٹ اور دھوکہ تھا جو عوام کو دیا گیا۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے اب تک کیے گئے اقدامات عام آدمی یا خاص طبقے کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہیں۔ صوبے میں کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں ہو سکا بلکہ پہلے سے جاری منصوبوں پر کام یا تو رک گیا ہے یا سُست روی کا شکار ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کے پاس ابھی وقت ہے اس لیے اُسے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔

پہلے سال حکومتی کارکردگی مایوس کن رہی: قومی اقتصادی سروے

قومی اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے سال کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ کوئی معاشی ہدف حاصل نہ کیا جا سکا۔

اقتصادی سروے کے مطابق فی کس آمدن، سرمایہ کاری، بچت اور مہنگائی سمیت کسی بھی ہدف کے حصول میں کامیابی نہ ہو سکی۔

ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافے سے فی کس آمدن میں سالانہ 136 ڈالر کی کمی ہوئی جب کہ فی کس آمدن 1652 ڈالرز سالانہ سے کم ہو کر 1516 ڈالرز سالانہ پر آگئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ملکی معیشت کا حجم 313 ارب ڈالر سے کم ہو کر 291 ارب ڈالر تک آ گیا ہے جب کہ جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا تناسب 17.2 فی صد کے برعکس 15.4 فی صد رہا۔

سروے میں سامنے آیا ہے کہ نجی شعبے میں سرمایہ کاری کا تناسب 10.8 فی صد ہدف کے برعکس 9.8 فی صد رہا۔

سرکاری شعبے میں سرمایہ کاری 4.8 فی صد ہدف کے برعکس 4 فی صد رہی۔

فکسڈ انویسٹمنٹ 15.6 فی صد کے ہدف کے برعکس 13.8 فی صد رہی۔

جی ڈی پی میں بچت کا تناسب 13.1 فی صد ہدف کے برعکس 11.1 فی صد رہا۔

اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران مہنگائی 6 فی صد ہدف کے برعکس 7.5 فی صد رہی۔ مالی سال کے دوران نو ماہ میں ترسیلاتِ زر میں 8.7 فی صد ہی اضافہ ہو سکا۔

جی ڈی پی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تناسب نو ماہ میں 5.7 فی صد سے کم ہو کر 4.4 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔

قومی اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے نو ماہ میں تجارتی خسارہ 21 ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس دوران برآمدات 18 ارب ڈالر اور درآمدات 39 ارب ڈالر سے زائد رہیں۔

XS
SM
MD
LG