رسائی کے لنکس

'امن معاہدے کے بعد امریکہ افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کر دے گا'


افغان صوبے میدان وردک کے فوجی اڈے میں امریکی فوجی اہلکار۔ فائل فوٹو
افغان صوبے میدان وردک کے فوجی اڈے میں امریکی فوجی اہلکار۔ فائل فوٹو

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس کے مطابق فریقین کے دستخط کرنے کے بعد 135 دن کے اندر امریکی فوجی افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کر دیں گے۔

افغان امن عمل سے متعلق امریکہ کے اعلیٰ مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے یہ بات پیر کو افغانستان کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن چینل ’ٹولو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتائی۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ پانچ فوجی اڈوں سے 5,000 امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ اس وقت افغانستان میں لگ بھگ سات فوجی اڈوں میں 14,000 امریکی فوجی تعینات ہیں۔

زلمے خلیل زاد نے اس بیان سے پہلے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کر کے اُنہیں مسودے کے کلیدی نکات سے آگاہ کیا تھا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق انہوں نے مسودے کی کاپی اُن کے حوالے نہیں کی تھی۔

افغانستان کے صدارتی ترجمان صادق صدیقی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ خلیل زاد نے افغان صدر کو اس سمجھوتے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جس پر ممکنہ طور پر جلد دستخط ہونے والے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ افغان صدر نے تفصیلات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

ترجمان نے مسودے کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ افغان حکومت مسودے کی تفصیلات کا بغور جائزہ لے کر خلیل زاد کی ٹیم کو آگاہ کرے گی۔

افغان صدارتی محل کے ترجمان صادق صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کام میں دو دن لگ سکتے ہیں جس کے بعد وہ خلیل زاد اور اُن کی ٹیم کو اپنے تاثرات سے آگاہ کریں گے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سربراہی میں ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کی کارروائیاں ختم ہو جائیں گی جس کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت ہو گی۔

افغان صدارتی ترجمان کے بیان پر طالبان کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ طالبان یہ کہتے ہوئے افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے مسلسل انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ ناجائز اور امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔

زلمے خلیل زاد نے اتوار کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے کہا تھا کہ انہوں نے قطر میں طالبان کے ساتھ بات چیت کا نواں دور مکمل کر لیا ہے اور وہ افغانستان کے صدر کو اس بات چیت کے نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے کابل روانہ ہو رہے ہیں۔

طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے بھی اتوار کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ افغانستان پر غیر ملکی قبضے کا خاتمہ اور افغانستان کے پر امن حل کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر کے ابتدائی طور پر 8,600 کر دی جائے گی اور اس کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس سلسلے میں مزید کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔

اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ رواں سال کے اختتام تک افغانستان سے تمام امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ 2020 کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران خارجہ پالیسی کی کامیابی کی نوید سنا سکیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ فوجوں کی واپسی مشروط ہو گی اور طالبان کی طرف سے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی صورت میں فوجوں کا انخلا روک دیا جائے گا۔ امریکہ کی طرف سے فوجوں کے انخلا کے جواب میں طالبان شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' سے اپنے رابطے ختم کر دیں گے اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستان کی زمین استعمال نہیں کی جائے گی۔

امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو اس بات کا بھی وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ افغان حکومت سمیت افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہوں گے۔

امن بات چیت کے ساتھ ساتھ طالبان نے افغانستان میں بڑے حملے جاری رکھے ہیں اور گزشتہ چند روز میں شمالی افغانستان کے دو اہم شہروں قندوز اور پل خمری پر قبضے کی ناکام کوشش کی ہے۔

گزشتہ ہفتے اور اتوار کو افغانستان کے مختلف علاقوں میں لڑائی اور بم حملوں میں مبینہ طور پر 200 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG