کراچی کا شمار دنیا کے گنجان آباد شہروں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بدترین رہائش والے شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کو کس کی نظر لگی ہے؟ کون ذمے دار ہے؟ کون کام نہیں کر رہا؟ وائس آف امریکہ یہ جاننے کے لیے آئندہ چند روز اسٹیک ہولڈرز کے انٹرویوز کرے گا۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: ایم کیو ایم خود کو کراچی کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر کہتی ہے۔ ماضی میں سب سے زیادہ نشستیں جیتتی رہی ہے۔ میئر بھی ایم کیو ایم کا ہے۔ کراچی کا جو حال ہے، کیا ایم کیو ایم اس کی ذمے داری قبول کرتی ہے؟
فیصل سبزواری: اس سوال کا جواب ہاں یا نہ میں دینا مشکل ہے۔ جس طرح سیاست میں گرے ایریاز ہوتے ہیں، اسی طرح سے ہاں یا نہ کہنے سے اوور سمپلی فکیشن ہوجائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں ہماری جو ترجیحات ہونی چاہیے تھیں، اپنی سیاسی طاقت کو آئینی اور قانونی طور پر استعمال کرتے ہوئے شہر کے مسائل کا طویل المدتی تحفظ حاصل کرسکتے تھے، وہ نہیں کر پائے۔ اس شہر کے مسائل حل کیسے ہوں گے؟ مسائل حل ہوں گے شہر کی اونرشپ سے۔ اونرشپ کس کی؟ کیا مقامی حکومت کی؟ ہونا تو یہی چاہیے۔ نائن الیون کے بعد نیویارک کو جارج بش نے نہیں بنایا تھا، میئر جولیانی نے بنایا تھا۔ لیکن کراچی کا میئر عجیب ہے کہ صوبے کے چیف سینی ٹیشن انسپکٹر کے اختیارات بھی وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں۔ شہر کا مسئلہ یہ ہے کہ گیارہ برس سے جو صوبائی حکومت یہاں موجود ہے، اس نے کراچی کے پانی میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ میرا یہ قصور ضرور ہے کہ میں پانچ سال ان کے ساتھ صوبائی حکومت میں رہا۔ لیکن بہرحال میں مسائل حل نہیں کروا پایا۔ اس صوبے کے وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات چونکہ اس شہر سے منتخب نہیں ہوتے تو وہ اس طریقے سے اس شہر کا درد بھی نہیں رکھتے۔
آئین کا آرٹیکل 140 کہتا ہے کہ صوبائی حکومت ایسی بلدیاتی حکومتوں کے الیکشن کروائیں گی جنہیں منتخب ہونے کے بعد سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری دی جائے گی۔ بدقسمتی کے ساتھ سندھ میں آئین سے براہ راست متصادم نظام ہے۔ جب نعمت اللہ صاحب، مصطفیٰ کمال صاحب یہاں میئر تھے اور کراچی کے عوام وسائل خرچ ہونے کی وجہ سے مستفید ہو رہے تھے تو اس وقت ان کے پاس شہری اداروں کا انتظام تھا۔ آج ایسا نہیں ہے۔ کراچی کے مسائل کو حل کرنا ہے تو یہاں پر آپ کو یکسوئی کے ساتھ آئین کی درست تشریح کرنی ہے۔ ورنہ میں آئین اور سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے کہوں کہ وہ آئین پھر اپنی وقعت کھو دیتا ہے جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکے۔
سوال: ایم کیو ایم وفاق میں حکمراں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔ صوبائی حکومت اور شہری حکومت کی نہیں بن رہی ہوگی لیکن وفاقی حکومت سے کچھ تعاون، کچھ فنڈ تو ملنا چاہیے۔
فیصل سبزواری: بالکل ملنا چاہیے۔ کم از کم اتنی رقم تو ملنی چاہیے جتنی لاہور شہر سے منتخب ہونے والی مسلم لیگ نون لاہور میں خرچ کرتی رہی ہے۔ ملک میں وسائل قومی مالیاتی کمیشن کي تحت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا حصہ آبادی کی بنیاد پر پنجاب کو 56 فیصد دیا جاتا ہے۔ پنجاب اپنے حصے کا 27 فیصد لاہور پر خرچ کرتا رہا ہے۔ جبکہ سندھ اپنے حصے کا 7 فیصد بھی کراچی پر خرچ نہیں کرتا۔ یہاں صوبائی حکومت نے گزشتہ سال صرف جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں ڈیڑھ سو ارب اکٹھے کیے۔ میں وفاقی حکومت کی بات نہیں کر رہا۔ ان سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ لاڑکانہ میں بہت مسائل ہیں، دادو میں بہت مسائل ہیں۔ آپ وہاں بھی پیسے خرچ کیجیے۔ گزشتہ سال میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے دو ہزار ارب سے زیادہ ترقیاتی بجٹ خرچ کیا جس میں 90 فیصد سے زیادہ دیہی سندھ پر لگایا گیا۔ آپ جہاں پیسے لگارہے ہیں، وہاں سے کوئی ریونیو جنریشن بھی تو کریں گے۔ یہ سارے وسائل لگانے کے بعد ان سے پوچھیں کہ خزانے میں کیا آرہا ہے؟ تو دیہی سندھ سے صرف 52 کروڑ روپے آرہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اس سال صوبائی حکومت کو 840 ارب روپے دیے ہیں۔ اس میں سے 800 ارب صرف کراچی سے حاصل کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی بھی ترجیح کراچی نہیں ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان کے پاس کتنی مالی گنجائش ہے۔ لیکن انھیں کراچی کو دینا چاہیے۔ فاٹا کے لیے عمران خان صاحب 200 ارب روپے کا اعلان کرتے ہیں، کراچی کے لیے 162 ارب اور اس میں سے بھی 100 ارب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ہیں۔ اگر اٹھارہویں ترمیم میرے کام کی نہیں ہے تو مجھے اسے چاٹنا نہیں ہے۔ پیسے لینے کے لیے اٹھارہویں ترمیم ہے، پیسے خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے۔
سوال: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے تجویز دی تھی کہ کراچی کو وفاق کے زیر انتظام دے دینا چاہیے۔ وہ اس سے یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ وہ ان کی ذاتی رائے تھی۔ لیکن کیا ایم کیو ایم اس کی حامی تھی؟
فیصل سبزواری: شاید لوگوں نے ان کی بات کا غلط مطلب لیا۔ ایم کیو ایم کی سطح پر بالکل ایسی بات نہیں تھی۔ میں کراچی کے شہری کے طور پر سمجھتا ہوں کہ اس شہر کی مردم شماری جعلی کی گئی۔ آدھی آبادی گنی ہی نہیں کی گئی۔ ہماری عدالتیں برائلر مرغی کے انڈے کے حفظان صحت کے مطابق نہ ہونے پر نوٹس لے لیتی ہیں، یہاں ڈیڑھ کروڑ افراد گنے نہیں گئے اور کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ میں اس کیس کا ایک پٹیشنر ہوں۔ ایم کیو ایم پٹیشنر ہے۔ وفاقی حکومت یہ تو کہہ سکتی ہے کہ آپ قومی مالیاتی کمیشن مانگتے ہیں کہ دو اور بار بار دو۔ کیونکہ ہم ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ وہ ٹیکس جمع کہاں سے ہوتا ہے؟ کراچی ہی سے تو ہوتا ہے۔ تو کوئی صوبائی حکومت سے یہ تو پوچھے کہ آپ نے گیارہ سال سے صوبائی مالیاتی کمیشن نہیں بنایا۔ وہ بھی تو آئینی تقاضا ہے۔
سوال: ایم کیو ایم کبھی گونج دار آواز میں اور کبھی دبے الفاظ میں کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ سندھی بولنے والے ہمیشہ اس مطالبے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر اس جانب پیش قدمی ہوئی تو سندھ کے دوسرے شہروں میں رہنے والے مہاجروں کا کیا بنے گا؟ کیا اردو بولنے والوں کو ایک اور ہجرت کرنی پڑے گی؟
فیصل سبزواری:کراچی کی ڈیموگرافی کو دیکھ لینا چاہیے۔ کراچی میں صرف اردو بولنے والے تو نہیں رہتے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں پشتو بولنے والے، سندھی بولنے والے، بلوچی بولنے والے رہتے ہیں۔ پنجابی، سرائیکی، ہزارہ سب رہتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا یہ کسی آسمانی صحیفے میں آیا ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے نہیں بنیں گے۔ اور اگر بنے کا تو صرف جنوبی پنجاب میں بنے گا، جنوبی سندھ میں نہیں بنے گا؟ کیا یہ جیکب آباد کے نوجوان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے کہ اسے اپنے مسائل کے حل کے لیے کراچی آنا پڑتا ہے۔ ایم کیو ایم نے کبھی زبان کی بنیاد پر صوبے کی بات نہیں کی۔ ہم تو کہہ رہے ہیں کہ انتظامی طور پر یہ صوبہ سسک رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نااہل بھی ہیں، بدعنوان بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر متعصب بھی ہیں۔ آپ آج نہیں مانیں گے تو کل ماننا پڑے گا۔
بہتر یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ ہمارے کیس کی سماعت کرے اور تین کروڑ لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ وفاق بھی اس سلسلے میں ہدایت جاری کر سکتا ہے کہ ہم آپ کو جو پیسہ دے رہے ہیں، یہ آپ کی جے آئی ٹی سے نہیں نکلنا چاہیے۔ ان سے آپ ترقیاتی کام کرائیں۔ نیا صوبہ بنانا اس لیے ضروری ہے کہ وفاق کو مضبوط کرنا ہے تو اختیارات کے عدم ارتکاز پر جانا پڑے گا۔
سوال: ہر پارٹی کا سندھی بولنے والا کراچی کو الگ کرنے کے خلاف ہے۔ ہر پارٹی کا پشتو بولنے والا کالاباغ ڈیم کے خلاف ہے۔ پھر وسیم اختر اور فیصل سبزواری، سعید غنی اور شہلا رضا، علی زیدی اور فیصل واوڈا، سب مل کر کراچی کی بہتری کے لیے ایک کیوں نہیں ہوجاتے؟
فیصل سبزواری: یہ بدقسمتی ہے اردو بولنے والوں کی۔ ماضی میں ایم کیو ایم نے بہت شدت سے یہ بات کی کہ شاید بہت سے لوگ خائف ہوگئے۔ لیکن آج تو ہم بالکل آئینی بات کررہے ہیں۔ 1973 کا آئین بنانے والوں نے عملی طور پر یہ بات ناممکن بنادی تھی کہ کوئی صوبہ، خاص طور پر جنوبی سندھ میں نہ بن پائے۔ کیونکہ اس کے لیے صوبائی اسمبلی کی دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔
آپ کراچی کی حالت دیکھیے، اس کے صنعتی علاقے دیکھیں جہاں کوئی سہولت میسر نہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پانی دستیاب نہیں، سوریج کا نظام خراب ہے۔ اس کے باوجود کراچی ملک کو پچپن فیصد برآمدات دے رہا ہے۔ آپ انکم ٹیکس کی بات چھوڑ دیں۔ کراچی کی بندرگاہ پر اترنے والا جو مال ڈرائی پورٹس چلا جاتا ہے اور وہاں ڈیوٹی اور کسٹم لیا جاتا ہے، اسے بھی چھوڑ دیں۔ حالانکہ کراچی کا انفرااسٹرکچر استعمال ہورہا ہے۔ لیکن آپ اس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین کے بارے میں سوچیں جو پورا ٹیکس دے رہا ہے لیکن اسے کے گھر کی سڑک توٹی ہوئی ہے، وہ اپنے یوسی ناظم کے پاس جاتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے کہ میرے پاس اختیار نہیں۔ اختیار اس وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات کے پاس ہے جس کا اس شہر سے تعلق نہیں۔
مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم گنا گیا تاکہ اسے فنڈ کم ملیں۔ جب تک یہ عدم مساوات برقرار رہے گی، کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کراچی کے مسائل صرف اردو بولنے والوں کے مسائل نہیں ہیں، تمام اہل کراچی کے مسائل ہیں۔ آپ کیسے کسی سرمایہ کار کو اس شہر میں لائیں گے جس کا اتنا برا حال ہوگا۔