"میں آخری لمحے تک یہی کہتی رہی کہ بریسٹ کینسر کا علاج کیوں کراؤں، زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ علاج سے انکار کر کے تم اپنا قتل خود کر رہی ہو لہذا میں نے اپنے چھ بچوں کی خاطر آپریشن کروا کر یہ قربانی دی۔"
یہ کہنا ہے 58 سالہ ریحانہ اعجاز کا جو چھاتی کے سرطان میں مبتلا تھیں لیکن بلاخر بر وقت علاج اور مضبوط قوت ارادی کے سبب اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوئیں۔
ریحانہ جامعہ کراچی میں سینئر سیکیورٹی آفیسر ہیں، شوہر کے انتقال کے بعد گھر اور بچوں کی ذمہ داری ان پر ہی آن پڑی تھی۔
ریحانہ 2008 میں سرطان کا شکار ہوئیں۔ ابتدا میں انہیں چھاتی میں گٹھلی محسوس ہوئی جسے انہوں نے نظر انداز کیا لیکن جب اس میں تکلیف بڑھنے لگی تو ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جہاں ان پر انکشاف ہوا کہ انہیں کینسر ہے۔
آپریشن سے قبل ان کی چھ مرتبہ کیمو تھراپی ہوئیں جن میں دو کیموز کے بعد ان کی حالت بگڑنے لگی۔ سر کے بال اترنے لگے، گھبراہٹ، متلی، بخار، نقاہت کا سامنا رہا لیکن اس سب کے باوجود وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتی رہیں اور ہمت سے اپنی نوکری بھی کرتی رہیں۔
کیمو تھراپی کے بعد ان کا آپریشن ہوا جس میں ان کا متاثرہ بریسٹ نکال دیا گیا جس سے بعد میں ان کی ریڈی ایشن (شعاعیں) لگنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ ان کا مرض بڑھا ہوا تھا اس لیے انہیں 21 ریڈی ایشن کرانا پڑیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ریحانہ کا کہنا تھا کہ اس بیماری کا سامنا کرنے اور اس سے لڑنے کی ہمت انہیں ان کی ذمہ داریوں نے دی۔ وہ بیوہ ہیں، ان کے بچوں کو ان کی اشد ضرورت تھی۔ اس بات نے ان کی ہمت میں اضافہ کیا اور وہ حوصلے سے ہر تکلیف کا سامنا کرتی چلی گئیں۔
بیماری کے دوران انہوں نے اپنی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی کی۔ اب ان کا سرطان ختم ہوچکا ہے لیکن وہ باقاعدگی سے اپنا معائنہ کراتی ہیں اور ادویات استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کی خوشیاں دیکھ سکیں۔
چھاتی کے سرطان کے علاج کے لیے پاکستان کے معالجین میں ایک بڑا نام ڈاکٹر روفینہ سومرو کا ہے جو اب تک ریحانہ سمیت کئی خواتین کا علاج کرچکی ہیں۔
ڈاکٹر روفینہ سومرو سالانہ اوسطاً 800 سے 900 مریض دیکھتی ہیں جب کہ ساڑھے چار سو سے پانچ سو آپریشن سالانہ کرتی ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے۔
سن 2018 کی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کینسر سے متاثرہ مریضوں میں 36 فی صد مریض چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹرو روفینہ کے بقول، یہ مسئلہ عالمی ہے لیکن مغرب میں اس کا شکار خواتین اپنی زندگی کی جانب لوٹ آتی ہیں جب کہ ہمارے یہاں اس مرض سے اموات کی شرح زیادہ ہونے کی اہم وجوہات شرم کی وجہ سے علاج میں تاخیر، علاج کا مکمل نہ کرانا، مالی تنگی اور دیگر معاملات ہیں۔
چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین اکثر آپریشن کرانے میں غیر معمولی تاخیر کردیتی ہیں جس کے سبب ان کی رسولی زخم بن کر پھٹ جاتی ہے۔
سرطان کا شکار پاکستانی خواتین ایشیائی ممالک میں سرفہرست
معالجین کے مطابق مغربی ممالک میں بسنے والی زیادہ تر خواتین اس بیماری میں 50 سے 60 برس کی عمر کے دوران مبتلا ہوتی ہیں جب کہ پاکستان میں 40 سے 50 برس کی خواتین اس کا شکار بنتی ہیں۔
بریسٹ کینسر سے متاثرہ خواتین میں سے 36 فی صد کی عمر 40 برس سے بھی کم ہے جس میں شادی شدہ کے علاوہ غیر شادی شدہ خواتین بھی شامل ہیں۔
مغربی ممالک میں بریسٹ کینسر کی تشخیص پہلے اسٹیج میں ہی کر لی جاتی ہے جس کا علاج بہت آسان ہے جب کہ پاکستان میں ایسے کیسز تب سامنے آتے ہیں جب کینسر دوسرے یا تیسرے اسٹیج میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اسٹیج ون پر ہی اسپتال سے رجوع کرنے والے مریضوں کی تعداد 10 فی صد سے بھی کم ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر روفینہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان ان ایشیائی ممالک میں سرفہرست ہے جہاں سب سے زیادہ خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔
شرم اور جھجھک، علاج کی راہ میں رکاوٹ
ڈاکٹر روفینہ کے مطابق ابتدائی مرحلے میں اس مرض میں مبتلا مریض کو تکلیف نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے خواتین خود اس کی جانچ پڑتال نہیں کر پاتیں۔ لیکن اگر معلوم ہو بھی جائے کہ کوئی گٹھلی بن رہی ہے یا چھاتی میں کوئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں تو وہ جھجھک اور شرم کے باعث کسی کو نہیں بتاتیں۔ ان خواتین میں بالخصوص نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔
ڈاکٹر روفینہ نے بتایا کہ اگر کوئی متاثرہ خاتون گھر کی خواتین کو اس مسئلے سے آگاہ کر بھی دے تو گھر کے مردوں کو اس معاملے سے آگاہ نہیں کیا جاتا جس کے باعث علاج میں رکاوٹ کی سب سے اہم وجہ یہ بن جاتی ہے کہ اسپتال کیسے لے کر جائیں اور لوگوں کو کیا بتائیں کہ یہ کس بیماری میں مبتلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی متاثرہ خاتون متعلقہ ڈاکٹر تک پہنچ بھی جائے اور مریض کو بتا دیا جائے کہ اسے چھاتی کا سرطان ہے تو لفظ 'کینسر' ہی ایسا ہے کہ لوگ اس سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹرو روفینہ کے بقول، یہ بیماری ایسی ہے کہ اگر بروقت اسے پکڑ لیا جائے تو اس کے نتائج اچھے آتے ہیں۔
متاثرہ خاتون پر آپریشن کا نفسیاتی اثر پڑسکتا ہے؟
معالجین کے مطابق ہر خاتون کو اپنے جسمانی حصے کی قربانی نہیں دینی پڑتی۔ کبھی کبھی گٹھلی چھوٹی ہوتی ہے اور بریسٹ نکالنے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن لوگوں کو یہ خوف ہوتا ہے یہ دوبارہ ہوجائے گا اسے جڑ سے نکال دیں۔
معالجین کا کہنا ہے کہ اب دنیا میں ثابت ہوچکا ہے کہ بریسٹ بچنے کے چانسز موجود ہیں۔ شعاعوں کی مدد سے مرض کو بڑھنے سے روک دیا جاتا ہے اس کی جڑ ختم کردی جاتی ہے۔ لیکن عورت کینسر کے دباؤ میں مان بھی جائے تو نفسیاتی اثر اس پر ہمیشہ رہے گا۔
ڈاکٹرو روفینہ نے مزید بتایا کہ پاکستان میں اتنی پلاسٹک سرجری اور بریسٹ ری کنسٹریکشن نہیں کرائی جاتی جتنی مغربی ممالک میں ہوتی ہے۔ تب ہی یہاں کی عورت پر بیماری اور اس کے بعد بھی ایک نفسیاتی اثر برقرار رہتا ہے۔
کیا یہ علاج بہت مہنگا ہے؟
معالجین کے مطابق یہ علاج پر منحصر ہے کہ کتنا طویل ہے۔ اس کے ٹیسٹ لازمی ہوتے ہیں۔ پھر آپریشن اور کیمو تھراپی ہے جس کا دورانیہ مہینوں پر محیط ہے اور یہ علاج بہرحال مہنگا ضرور ہے۔
اس سلسلے میں سرکاری ادارے موجود ہیں جبکہ اٹامک انرجی سینٹرز کے پورے ملک میں 17 ادارے ہیں جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر مفت ادارے بہت کم ہیں۔
ڈاکٹر روفینہ کے مطابق سرکاری سطح پر معالجین کے ساتھ ساتھ ریڈی ایشن تھراپی کی بہترین سہولت بھی میسر ہیں لیکن اسپتالوں میں اس سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی طویل قطاریں ہیں جس میں مریضوں کو چار سے پانچ ماہ کا انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔
خواتین اپنا خیال کیسے رکھیں؟
ڈاکٹر روفینہ کے مطابق خواتین کو اپنا خیال خود رکھنا ہوگا۔ اگر انہیں اپنے بریسٹ میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی رونما ہوتی نظر آئے جیسے سائز میں تبدیلی، سوجھن، کھال پر کوئی نشان یا بغل میں غدود کا بننا، کسی قسم کا ابھار، خون یا پیپ کا رساؤ تو اسے سنجیدگی سے لیں۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ خواتین اپنی صفائی کا خاص خیال رکھیں، نہاتے ہوئے یا لباس کی تبدیلی کے دوران بھی وہ ممکنہ گٹھلی یا رسولی کی جانچ کرسکتی ہیں ضروری نہیں کہ وہ رسولی کینسر کی ہی ہو لیکن کسی بھی ایسی صورت میں وہ اپنے قریبی رشتے دار کو اس سے مطلع کریں اور فوری معالج سے رجوع کریں۔
چھاتی کا سرطان ہونے کی ممکنہ وجوہات اور احتیاط
ڈاکٹر روفینہ کے مطابق اس بیماری کے ہونے میں طرز زندگی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، سگریٹ نوشی، آلودہ پانی، کیمیکل سے افزائش کی گئی سبزیاں، پھل، ہارمونل انجیکٹ مرغیاں، مرغن غذائیں، موٹاپا یہ سب بھی اس بیماری کی ایک وجہ بن سکتی ہیں لیکن ممکنہ احتیاط سے اس سے بچا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر پہلی اولاد 35 برس کی عمر سے پہلے ہو اور بریسٹ فیڈ کرائی جائے تو اس سے بھی اس بیماری کے ہونے کا خطرہ کم رہتا ہے۔
ڈاکٹرو روفینہ کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے اس بیماری کے ہونے کے خدشات بڑھتے جاتے ہیں اس کے لیے معالج کے مشورے سے میمو گرام کراتے رہنے سے بھی معلوم ہوتا رہے گا کہ آپ کو کوئی خطرہ تو لاحق نہیں۔