ہوا کے معیار کو جانچنے والی عالمی ویب سائٹ ایئر ویژول پر جمعرات اور جمعے سے لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس مسلسل آلودگی ظاہر کر رہا ہے۔ لاہور 170 سے 250 ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ دُنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں مسلسل پہلے نمبر پر ہے۔
جمعے کی رات کراچی 206 ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ لاہور میں امریکی سفارت خانے میں نصب ہوا کے معیار کو جانچنے کا آلہ بھی 223 اے کیو آئی ظاہر کر رہا ہے۔ اس کے مطابق، ہوا کا یہ معیار شدید مضر صحت ہے۔
تاہم، پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کا محکمہ اِسے خطرے کی گھنٹی تسلیم نہیں کرتا۔ محکمے کے مطابق، ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے تجاوز کرے تو ہنگامی صورتِ حال درپیش ہوتی ہے۔
ہوا کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کیا ہے؟
ہوا مختلف گیسوں کے امتزاج سے بنی ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بہت سے دیگر چھوٹے مادے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن، جب کہیں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں یا ذرائع آمد و رفت دھواں پھیلانے لگیں، فیکٹریوں اور بھٹوں سے دھوئیں کا اخراج ہو، فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہوں تو ایسی صورت میں ہوا میں موجود چھوٹے مادے بڑھ جاتے ہیں۔ اور ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ انہی مادوں کے بڑھتے تناسب کا جائزہ لے کر ہی ہوا کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔
یہ گیسیں جس قدر بڑھتی جائیں گی اتنی ہی ہوا آلودہ ہوتی جائے گی۔ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر میں ایک ماحولیاتی پراجیکٹ کی کوارڈینیٹر فرح راشد ایئر کوالٹی انڈیکس کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ فضائی آلودگی کا جائزہ ایئر کوالٹی انڈیکس سے لیا جاتا ہے۔
ان کے بقول، "یہ بالکل ایک تھرما میٹر کی طرح کام کرتا ہے، جس میں صفر سے پانچ سو ڈگری کی سطح دی گئی ہوتی ہے۔ تو صفر سے پچاس ڈگری تک بتاتا ہے کہ یہ بالکل خطرناک نہیں ہے یعنی ہوا میں گیسوں کا تناسب بالکل درست ہے۔ پچاس سے سو کی حد بتاتی ہے کہ گیسز نارمل مقدار سے زیادہ موجود ہیں لیکن یہ صحت کو نقصان نہیں پہنچا رہیں۔ اس کے بعد جب آپ سو سے ڈیرھ سو کی حد میں جائیں تو یہ حساس طبیعت کے لوگوں کے لیے مُضر صحت ہے۔ لہذٰا، وہ لوگ جنہیں سانس کی بیماری ہے یا بچے اور بوڑھوں کو متاثر کر سکتی ہے اور اگر یہ ڈیرھ سو سے دو سو تک ہو تو ریڈ زون میں آتا ہے اور لاہور کی ہوا تو اکثر اسی زون میں رہتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ آلودہ رہتی ہے۔"
یو ایس کوالٹی انڈیکس اور پاکستان اے کیو آئی میں فرق؟
یو ایس ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق، پاکستان کا شہر لاہور جمعرات اور جمعہ کو دنیا کے آلودہ شہروں میں پہلے درجے پر رہا۔ لیکن ہوا کے اس آلودہ معیار نے شہر میں کسی قسم کی ماحولیاتی ایمرجنسی کا بگل نہیں بجایا گیا۔ لاہور میں ماحولیات پر کام کرنے والے ایک نجی ادارے ایشین اینوائرمینٹل سروسز کے ڈائریکٹر علیم بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں 2017 میں پہلی بار اسموگ پالیسی بنائی گئی، جس کے بعد حکام نے ایئر کوالٹی انڈیکس کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ان کے مطابق، دنیا بھر میں یونائیٹڈ اسٹیٹس اے کیو آئی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن، اسموگ پالیسی میں پاکستان نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے درجے اپنی مرضی سے طے کیے، جسے ماحولیاتی تحفظ کمیٹی سے منظور کرا لیا گیا۔ یہ امریکہ کے بنائے عالمی اے کیو آئی سے کسی صورت مطابقت نہیں رکھتا۔
علیم بٹ نے اس کی مثال ایسے دی کہ یو ایس اے کیو آئی کہتا ہے کہ صفر سے پچاس ڈگری کی سطح بہتر ہے جب کہ پاکستان اے کیو آئی صفر سے ایک سو کو بہتر مانتا ہے، جس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کے بقول، ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے مطابق جمعے کو پنجاب کا اے کیو آئی 95 رہا لیکن ایئر ویژول کے مطابق لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 250 تک گیا۔ علیم بٹ کہتے ہیں کہ امریکہ میں یہ آلات جدید تحقیق کے بعد بنائے گئے ہیں۔ لہذٰا، ہمیں بھی انہیں اپنانا چاہیے۔
'ہوا کے معیار سے زیادہ فضائی آلودگی ختم کرنا ضروری ہے'
ماہرین ماحولیات کے مطابق، ہوا کے معیار کی مانیٹرنگ سے زیادہ فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے حل نکالنے چاہئیں۔ ہوائی آلودگی سے فکرمند ہو کر کراچی کے عابد عُمر نے 'پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹیو' کے نام سے ایسا ادارہ شروع کیا ہے جس میں اُنہوں نے پورے ملک سے لوگوں کو اکٹھا کرکے یہ مہم چلائی کہ تمام لوگ اپنے طور پر فضائی آلودگی ختم کریں۔ مہم کے تحت مختلف شہروں سے رضاکاروں نے ہوا میں آلودگی کی نگرانی شروع کی۔
عابد عُمر کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد صرف ہوا کی مانیٹرنگ نہیں بلکہ ہم آلودگی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ جو کسی صورت حکومت اور سیاسی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے پاکستان کو باقاعدہ پالیسی بنانی ہو گی۔ اُن کے مطابق، اس کا سب سے پہلا حل فیول کوالٹی کو بہتر بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "پاکستان میں اس وقت جو فیول استعمال ہو رہا ہے اُس میں آلودہ ذرات کی بھرمار ہے اور وہ کسی صورت استعمال کے قابل نہیں۔"
عابد عُمر کہتے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی بھی فضائی آلودگی کے خاتمے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول، ہمیں گاڑیوں کے کم سے کم استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔
محکمہ تحفظ ماحولیات کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاہور میں واہگہ ٹاون، ٹاون شپ، جیل روڈ پر مانیٹرنگ آلہ جات نصب ہیں۔ اُن کے مطابق، واہگہ ٹاون کا ایئر انڈیکس فیکٹری ایریا ہونے کے باعث زیادہ رہتا ہے۔ لیکن رہائشی علاقوں میں یہ 180 سے تجاوز نہیں کرتا۔