جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان کی فوج کے ترجمان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے بیان سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے فوج کو جانبدار بنانے کی کوشش کی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کی قیادت کے ہنگامی مشترکہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں فوج کے ترجمان کی جانب سے ایسا بیان کیوں دیا گیا؟
مولانا فضل الرحمن نے جمعے کو آزادی مارچ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ ان کی اداروں سے متعلق پالیسی نپی تلی ہے۔ لیکن انہیں محسوس ہوا کہ ادارے اس ناجائز اور نالائق حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو پھر ہم اداروں سے متعلق اپنی رائے دوبارہ قائم کریں گے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں کہا تھا کہ فوج ایک غیرجانبدار ادارہ ہے اور جمہوری طور پر منتخب حکومت کو فوج کی حمایت حاصل ہوتی ہے.
فوج کے ترجمان پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس قسم کا بیان کسی سیاست دان کی جانب سے سے تو دیا جاسکتا ہے لیکن ملک کے اعلی ادارے کے ترجمان نے کس حیثیت میں یہ بیان دیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ فوج ایک ادارہ ہے جس کا ہم احترام کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ فوج کے ترجمان نے ان سے پوچھا ہے کہ اداروں سے ان کی مراد کیا ہے۔ لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بیان دے کر میرے بیان کی خود ہی وضاحت کر دی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیا کہا تھا؟
فوج کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ فضل الرحمٰن بتا دیں وہ کس ادارےکی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری سپورٹ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔ فوج نےالیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنے تحفظات متعلقہ اداروں میں لے کر جائے اور سٹرکوں پر آ کر الزام تراشی نہ کرے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی کو ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کیا کہا تھا؟
مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے اسلام پہنچنے پر جلسے سے جارحانہ خطاب کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پوری قوم اس حکومت کو غیر جمہوری اور دھاندلی کی پیداوار سمجھتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے دو روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بھر سے آزادی مارچ میں شریک عوام کے مطالبے کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اپنے احتجاجی دھرنے اور اس کی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات پر اپوزیشن کا مکمل اعتماد ہے۔ ان کے بقول مستقبل کی حکمت عملی کے لیے رہبر کمیٹی کا اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا ہے جو ہفتے کو ہو گا۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق مولانا فضل الرحمن بولے کہ تاحال ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ اگر حکومت نے رابطہ کیا تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پوری اپوزیشن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیلیکٹڈ حکومت ناکام ہو چکی ہے اور اسے گھر جانا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ عوام کا یہ سمندر یہ قدرت رکھتا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر انہیں گرفتار کر لے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے جارحانہ خطاب میں اداروں کو موجودہ حکومت کی حمایت ترک کرنے کے لیے بھی دو روز کی مہلت دی تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے روانہ ہوا تھا۔ جو سکھر، رحیم یارخان، ملتان، ساہیوال اور لاہور سے ہوتا ہوا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔