امریکہ اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور ایران کے جوابی حملے کے بعد صورتِ حال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔
گو کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کھلی جنگ چھیڑنے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ لیکن، ساتھ ہی انہوں نے ایران پر کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور کسی بھی مزید مہم جوئی سے باز رہنے کی بھی تنبیہ کی ہے۔
امریکہ ایران تنازع ہے کیا؟
امریکہ کو ایران سے یہ گلہ ہے کہ وہ اپنی جوہری قوت میں اضافے کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک میں مداخلت کرتا ہے۔
امریکہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ اور خلیج میں امریکہ کے اتحادی ممالک کے لیے خطرے کا باعث ہے، خاص طور پر اسرائیل اور سعودی عرب ایران سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
البتہ ایران، مشرقِ وسطیٰ اور خطے کے دیگر ممالک میں امریکی فوج کی تعیناتی کو بلاجواز قرار دیتا رہا ہے۔
ایران کا یہ مؤقف رہا ہے کہ امریکہ اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مذموم کارروائیاں کرتا ہے، جس کی اسے اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امریکہ اور ایران کے درمیان شام، یمن اور عراق کے معاملات پر بھی اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ امریکہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے، جب کہ ایران اور روس بشار الاسد حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکہ کے 54 ہزار فوجی کہاں کہاں تعینات ہیں؟
امریکی قومی سلامتی سے متعلق غیر سرکاری ادارے 'امریکن سیکیورٹی پراجیکٹ' کی رپورٹ کے مطابق، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں لگ بھگ 54 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
ادارے کے مطابق، یہ خطہ امریکہ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ لہذٰا، دہائیوں سے یہاں امریکی اڈے، جنگی بحری بیڑے اور فوجی تعینات رہے ہیں۔ البتہ، خطے کے معروضی حالات کے تناظر میں فوج کی تعداد میں کمی بیشی کی جاتی رہی ہے۔
بحرین
رپورٹ کے مطابق، 1991 میں امریکہ اور بحرین کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت سات ہزار امریکی فوجی یہاں تعینات کیے گئے۔
امریکہ کی بحریہ بھی یہاں پر موجود ہے۔ امریکی نیوی کا پانچواں جنگی بیڑا بحرین میں عرصہ دراز سے تعینات ہے، جو خلیج عرب، خلیج عمان، بحیرہ احمر اور آبنائے ہرمز کے پانیوں میں گشت کرتا ہے۔
امریکی بحریہ نے بحرین کی خلیفہ بن سلمان بندرگاہ پر نیول بیس قائم کر رکھی ہے، جس کی توسیع پر امریکہ اب تک 2 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ یہاں طیارہ بردار جنگی جہاز بھی لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔
کویت
کویت میں 13 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ فوج 1991 میں عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ اور کویت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کے بعد تعینات کی گئی۔
یہاں کی علی السلیم ایئر بیس بھی امریکہ کے استعمال میں ہے، جسے سی 17 اور سی 130 کارگو طیاروں کی پروازوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ کیمپ عارفجان، کیمپ بچرنک اور کیمپ پیٹریاٹ میں بھی امریکہ کی فوجی تنصیبات موجود ہیں۔
عراق
عراق میں لگ بھگ چھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ 2011 کے بعد یوں تو امریکہ نے عراق میں مستقل فوجی اڈے ختم کر دیے تھے۔ لیکن، اب بھی عراق کے مغربی صوبے عنبر میں عین الاسد ایئر بیس امریکہ کے زیرِ استعمال ہے۔ یہ وہی فوجی اڈہ ہے جہاں منگل کو رات گئے ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے میزائل داغے تھے۔
یہ فوجی اڈہ عراقی فوج کی تربیت، معاونت اور مشاورت کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔
اُردن
امریکن سوسائٹی پراجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق، اُردن میں تین ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔
اُردن کا موافق سلطی ایئر بیس بھی امریکہ کے زیرِ استعمال ہے۔
سعودی عرب
سعودی عرب میں بھی تین ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکہ کے 2003 میں عراق پر حملے کے بعد امریکہ نے ہزاروں فوجی سعودی عرب سے نکال لیے تھے۔
البتہ، تاحال موجود یہ تین ہزار فوجی سعودی فوج کی تربیت اور معاونت کے مصروف عمل ہیں۔
سعودی عرب نے گزشتہ سال ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث امریکہ سے مزید فوجی کمک طلب کی تھی۔
متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات میں 5 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ متحدہ عرب امارات خطے میں امریکہ کا اہم حلیف سمجھا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی الجفرا ایئر بیس، جبل علی بندرگاہ اور فجیرہ نیول بیس پر بھی امریکی فوجی تعینات ہیں۔
امریکہ افغانستان میں فوجی کارروائیوں اور زمینی افواج کی معاونت کے لیے زیادہ تر متحدہ عرب امارات کی سرزمین استعمال کرتا ہے۔
قطر
قطر میں 13 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہاں العدید کے مقام پر قائم فوجی اڈا مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے۔
سعودی عرب سے 2003 میں فوجی انخلا کے بعد بیشتر امریکی فوجیوں کو یہاں تعینات کر دیا گیا تھا۔
امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں دولت اسلامیہ یا داعش کے خلاف کارروائیوں کے لیے قطر کے فوجی اڈے کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔
ترکی
یوں تو حالیہ عرصے میں علاقائی تنازعات پر ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں بھی تناؤ ہے، لیکن اس کے باوجود ترکی میں 2500 امریکی فوجی موجود ہیں۔
نیٹو ممالک کا رُکن ہونے کے ناطے امریکہ ترکی کی انسرلک ایئر بیس اور ازمیر ایئر اسٹیشن کو اپنے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے اطراف میں سمندر اور خشکی دونوں پر امریکی فوج کی بڑی تعداد موجود ہے اور کھلی جنگ کی صورت میں امریکہ مشرق وسطیٰ اور خطے میں موجود اپنی کئی تنصیبات کو بروئے کار لا سکتا ہے۔