رسائی کے لنکس

'مشرقِ وسطیٰ میں اب امن کے سوا کچھ بھی ہو سکتا ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عراق میں امریکی میزائل حملے میں ایران کے پاسدران انقلاب کی 'قدس فورس' کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت دنیا بھر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک کے علاوہ امریکی کانگریس کے ارکان اور سیاست دانوں کی جانب سے امریکی اقدام پر ردِ عمل آ رہا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

روس کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں امریکی اقدام کو غیر محتاط قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔

پاکستان نے بھی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ صورتِ حال خطے کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یکطرفہ اقدامات اور طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ کم کرنے کے لیے مثبت رابطوں کی ضرورت ہے۔

شام نے اس کارروائی کو امریکہ کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔

عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو عراق کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ امریکہ کی عراق میں موجودگی کے معاہدے کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر عراقی عوام آزادی اسٹریٹ میں جشن منا رہے ہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران کے خلاف یہ اقدام کیا گیا۔ اس اقدام سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور خدشہ ہے کہ حالات اس نہج پر نہ چلے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔

امریکی سینیٹ کی اُمور خارجہ کمیٹی کے رُکن سینیٹر جم رش نے کہا کہ "قاسم سلیمانی سیکڑوں امریکیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار تھے۔"

ری پبلکن سینیٹر نے مزید کہا کہ انہوں نے پہلے بھی ایران کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی جارحیت پر مبنی پالیسی سے امریکہ کے صبر کا امتحان نہ لے۔

انہوں نے کہا کہ "وہ امریکی فوجی اور شہری جو عراق میں ایران کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں اور راکٹ حملوں میں ہلاک ہوئے، آج اُنہیں انصاف مل گیا۔"

سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اس اقدام سے خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی مزید بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ امریکی عوام اور خطے کے حلیف ممالک کو وضاحت دیں کہ امریکہ کی حکمت عملی ہے کیا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ "خطے میں تعینات ہمارے فوجی، سفارت خانے اور عوام کے تحفظ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کو یہ بتانا ہو گا۔"

ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس مرفی نے کہا کہ "سلیمانی امریکیوں کا دُشمن تھا۔ لیکن اس کی ہلاکت سے امریکیوں کو مزید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔"

آئندہ سال امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ کی اُمیدوار سینیٹر الزبتھ وارن نے اپنے ردِ عمل میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو مشرقِ وسطی میں مزید کشیدگی کا پیش خیمہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ قاسم سلیمانی ہزاروں امریکیوں کے قتل کے ذمہ دار تھے۔ لیکن عجلت میں کیے گئے اس اقدام سے کشیدگی مزید بڑھے گی اور مزید لوگوں کی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

عراق کے شیعہ رہنما مقتدی الصدر، جو عراق میں امریکی اور ایرانی مداخلت کے مخالف ہیں، نے فریقین کو تدبر کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ساتھ ہی مقتدی صدر نے عراق کی سالمیت کے لیے 'مہدی آرمی' کو دوبارہ فعال کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے اور صدام حسین حکومت کے خاتمے کے بعد شیعہ رہنما مقتدی الصدر نے 'مہدی آرمی' کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ مختلف محاذوں پر امریکہ اور اتحادی فوج کے خلاف خونریز جھڑپوں میں ملوث رہی تھی۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ قاسم سلیمانی دہشت گرد اور ان کے ہاتھ امریکیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امن کے خواہاں افراد کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کا شکریہ کے انہوں نے درست قدم اٹھایا۔

فلسطین کی تنظیم حماس کے ترجمان بسیم نعیم نے کہا کہ "سلیمانی کے قتل سے اب خطے میں امن کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس صورتِ حال کے ذمہ دار صدر ٹرمپ ہیں۔"

ایرانی پاسدران انقلاب کے سابق کمانڈر محسن رضائی نے ایک بیان میں کہا کہ قاسم سلیمانی 'شہید' بھائیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ لیکن امریکہ سے اس اقدام کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG