بالآخر پچھلے ہفتے برطانیہ نے یورپی یونین کو خداحافظ کہا اور اب برطانیہ ایک الگ ملک کے طور پر اپنی پالیسیاں بنانے کے لیے آزاد ہے۔ اگلے گیارہ مہینوں کے دوران برطانیہ تعلقات کی نئی جہتیں متعین کرنے کے لیے یورپی یونین سے مذاکرات کرے گا، جس میں آزاد تجارتی معاہدے کی توثیق کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اندازے لگائے جارہے ہیں کہ یہ مذاکرات مشکل ثابت ہوں گے۔ دونوں جانب سے سخت موقف اختیار کیا جاسکتا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک یورپی یونین کے ضابطوں کا پابند نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے ضابطے اور قوانین خود وضع کریں گے۔ تاہم ہمیں توقع ہے کہ یورپی یونین کے ملکوں کے ساتھ خوشگوار تجارتی تعلقات قائم رہیں گے۔
لندن میں جمعہ کو بریگزٹ کے حق میں مظاہرہ بھی ہوا۔ بریگزیٹ پارٹی کے رہنما نائیجل فریج نے مظاہرین سے خظاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنی الگ جگہ بنانا کوئی آسان بات نہیں ہوگی۔
یورپی یونین سے انخلا کا معاملہ کئی سال تک برطانوی سیاست پر حاوی رہا۔ تقریباً ساڑھے تین برسوں کے دوران اس پر بحث و مباحثہ، ریفرنڈم اور یہاں تک کے نئے انتخابات بھی ہوئے۔ برطانوی عوام اس معاملے پر منقسم ہی رہی۔ اور آنے والے دنوں میں بھی مخالفت اور حمیت کے درمیان موجود خلا آسانی پر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔