سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ بھر میں تعمیرات کے ذمے دار ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کو عہدے سے فوری طور پر ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ ادارے کے تمام معاملات بذات خود دیکھیں اور ادارے کی تنظیمِ نو کی جائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں ہونے والی تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات اور دیگر معاملات پر مختلف مقدمات کی سماعت کی۔
عدالت نے حکم دیا کہ یہ تاثر عام ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پیسے لے کر تعمیرات کراتی ہے۔ عدالت کسی صورت عام شہریوں کا استحصال ہونے نہیں دے گی۔
سپریم کورٹ نے وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ بذاتِ خود اس سنگین معاملے کو دیکھیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے تمام اعلیٰ افسران کو بھی عہدے سے ہٹا کر ادارے کی تنظیم نو کی جائے اور جب تک نیا ڈائریکٹر جنرل ادارے میں تعینات نہیں کیا جاتا اس کے تمام معاملات چیف سیکرٹری دیکھیں گے۔
دورانِ سماعت عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ آپ کا یہ محکمہ انتہائی کرپٹ ہے جسے ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ادارے میں بعض ایماندار افسران بھی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی کی اہم ترین شاہراہوں پر چائنہ کٹنگ عام ہے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کچھ بھی الاٹ کرنے کا لیٹر جاری ہو جاتا ہے۔ سندھی مسلم سوسائٹی، شاہراہ کشمیر، شاہراہ قائدین حتیٰ کہ شاہراہ فیصل پر بھی تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات عام ہیں۔
بینچ کے ایک رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیاں کھڑی کر کے غیر قانونی تعمیرات کرائی جا رہی ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہر کی تباہی کی اصل ذمہ دار ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ "شہر میں پارکنگ کی جگہوں پر دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ نالوں پر تعمیرات کھڑی کر دی گئیں ہیں, جبکہ صنعتی علاقوں کا برا حال ہے۔ ان علاقوں کی سڑکیں دھول مٹی، گرد و غبار میں ڈوبی ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ ایسے میں کوئی مریخ سے آکر ہی یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔"
عدالت نے ایک بار پھر حکم دیا کہ شہر سے تجاوزات کا خاتمہ کر کے شہر کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جاۓ۔
ایک ہفتے میں رپورٹ طلب
سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی زمین احکامات کے کئی ماہ گزر جانے کے باوجود بھی واگزار کرانے میں ناکامی پر چیف سیکرٹری سندھ اور سیکرٹری ریلویز کی سرزنش کی۔
عدالت نے کہا کہ تجاوزات کے خلاف مہم میں اب تک صرف غریبوں کی جھونپڑیاں گرائی گئیں۔ مگر بڑی بڑی عمارتیں اب تک نہیں گرائی گئیں کیونکہ اس میں ان (حکام) کے مفادات وابستہ ہیں۔
دورانِ سماعت تجاوزات کے خلاف مہم سے متاثرہ افراد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تجاوزات ہٹانے کی مہم میں ساڑھے چھ ہزار لوگوں کو بے گھر کیا گیا۔ مگر بڑے بڑے پلازہ نہیں گرائے جا رہے۔
کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ بعض عمارتوں کو گرانے پر سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھا ہے، جس پر عدالت نے واضح کیا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے راستے میں جو بھی عمارت آئے اسے گرا دیا جائے اور ایک ہفتے میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
کیس کا پسِ منظر:
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مئی 2019 میں اپنے ایک حکم نامے میں کراچی سرکلر ریلوے کو تجاوزات سے پاک کرنے اور اس کے 43 کلومیٹر ٹریک پر ٹرین چلانے کا حکم دیا تھا۔
حکام کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق، اب تک ٹریک کا 37 کلومیٹر حصہ واگزار کرایا جا چکا ہے، جبکہ چھ کلومیٹر پر اب بھی تجاوزات قائم ہیں جن پر عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت رہے ہیں۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔ تاہم، اس کے لیے تجاوزات ہٹانے اور منصوبے پر عمل درآمد کے لیے بعض نکات پر چینی حکام سے بات چیت ہونا ابھی باقی ہے۔
اسی طرح عدالتی حکم کے تحت اکتوبر 2018 میں شہر میں تجاوزات کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کی گئی، جس کا آغاز تاریخی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں موجود سالوں سے قائم تجاوزات ہٹانے سے ہوا۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ شہر بھر میں تجاوزات ختم کر کے کراچی کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے۔
عدالت نے ملک کے سب سے بڑے شہر کا ماسٹر پلان نہ ہونے پر بھی حکام کی سرزنش کی تھی اور مربوط ماسٹر پلان تیار کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔