چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالت کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن روکنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ ریاست کو قبضہ مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی اولین ترجیح ہے۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن پر وفاقی اور سندھ حکومت کی جانب سے نظرِ ثانی کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے دیے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو سندھ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا۔ لیکن آپریشن کا دائرہ پورے شہر تک پھیلا دیا گیا ہے جس پر صوبائی حکومت کو تحفظات ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت میئر کراچی کو چار ہفتوں کے لیے تجاوزات کے خلاف آپریشن سے روکے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ تجاوزات کے خاتمے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ حکومت چاہتی ہے تو متاثرین کو متبادل جگہ دیدے۔ عدالت نے اس سے منع نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے صورتِ حال خراب کرادی ہے۔ کیا ریاست کو قبضہ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ اگر قبضے کرنے والوں کو نہ روکا گیا تو یہ کل دوبارہ آکر بیٹھ سکتے ہیں۔ عدالت ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے حکم سے قبل ہی میئر کراچی نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا جس پر ہم نے اس علاقے کو ماڈل کے طور پر بنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے میئر کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ میئر کراچی اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا کر تجاوزات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
دورانِ سماعت میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت سے درخواست کی کہ فی الحال گھروں کے خلاف کارروائی روک دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق جو فیصلہ کرنا ہے آپ کریں۔ کوئی رکاوٹ ہے تو اس سے عدالت کو آگاہ کریں۔
عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو میئر کراچی کے ساتھ مل کر تجاوزات کے خلاف آپریشن میں متاثر ہونے والے شہریوں کے لیے جامع پلان تیار کرنے کا حکم بھی دیا۔
تجاوزات کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے جاری کراچی کی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن میں اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار ہزار سے زائد دکانیں، شیڈز، ہوٹلز اور دیگر پکی تجاوزات مسمار کی جاچکی ہیں۔
ان کارروائیوں سے ہزاروں افراد کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوسرے مرحلے میں اب کراچی سرکلر ریلوے کے 43 کلومیٹر طویل روٹ پر بھی تجاوزات مسمار کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے دوران انتظامیہ کو ریلوے کی 580 ایکڑ زمین واگزار کرانی ہے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے ایک اور کیس کی سماعت کے دوران کراچی میں بلند عمارتوں کی تعمیر پر عائد پابندی ختم کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے 2017ء میں شہر میں پانی کی کمی کے باعث اونچی عمارتیں بنانے پر پابندی عائد کی تھی جس کے خلاف بلڈرز کی انجمن 'آباد' نے اپیل دائر کی تھی۔
منگل کو سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ بلڈرز قانون کے مطابق بلند عمارتیں بناسکتے ہیں۔