پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وفاق اور سندھ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کرونا وائرس از خود نوٹس کی سماعت کی تو اُس دوران عدالت نے حکومتی ٹیم اور اس کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی کابینہ غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ معاونین خصوصی کی فوج ہے جن کے پاس وزرا کے اختیارات ہیں۔ ان میں سے کئی کابینہ اراکین پر جرائم میں ملوث ہونے کے مبینہ الزامات ہیں۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا آج حکم دیں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ظفر مراز کو عہدے سے ہٹانا تباہ کن ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس قسم کی ٹیم کرونا پر کام کر رہی ہے۔ ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے نقصان ہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا دوران سماعت کہنا تھا کہ کوئی ملک کرونا سے لڑنے کے لیے پیشگی تیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنا ہوتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ، لیکن وزیرِ اعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ کیا پارلیمنٹیرینز، پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے پارلیمان قانون سازی کرے گا؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کر چکے ہیں۔
عدالت سندھ حکومت پر بھی برہم
دورانِ سماعت سندھ حکومت کی کارکردگی پر بھی ججز کی طرف سے شدید تنقید کی گئی۔ عدالت نے صوبائی حکومت سے پیر کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
عدالت نے کہا کہ کراچی میں 11 یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی۔ حکومت کو سیل شدہ علاقوں میں متاثرہ افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں اور وہاں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں۔
عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ صوبائی حکومت آٹھ ارب کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کر سکی جب کہ صوبے بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے راشن کہاں سے اور کتنے میں خریدا گیا۔ کتنا راشن کس کو دیا۔ تمام تفصیلات فراہم کی جائیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سندھ حکومت 'پی پی ای کٹس' کس نرخ پر خرید رہی ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ یہ کٹس مختلف نرخوں پر خریدی جا رہی ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مقامی سطح پر کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی کٹس کی تیاری شروع ہو چکی ہے اور روزانہ پانچ ہزار کٹس تیار ہو رہی ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ سندھ میں لوگوں کی مدد کے لیے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے گئے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کو راشن فراہم کیا گیا ہے۔
عدالت نے سوال کیا کہ کہاں اور کس کو راشن فراہم کیا؟ سندھ پولیس تو جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہی ہے۔ 10 روپے کی چیز دے کر چار وزیر تصویر بنانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سندھ میں گٹر کا ڈھکن لگانے کے لیے چار لوگ کھڑے ہو کر تصویر بناتے ہیں۔
عدالت نے راشن کی تقسیم کے حوالے سے سوال کیا کہ سندھ میں راشن تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟۔راشن دینے کے لیے کیا طریقہ کار مقرر ہے۔ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر کے ذریعے راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ دیہاڑی دار ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے دوران سماعت کہا کہ پانچ لاکھ چار ہزار 80 خاندانوں کو 15 دن کا راشن دیا گیا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے آٹھ ارب کا غریبوں میں راشن تقسیم کیا۔ لیکن غریب کو پتہ بھی نہیں چلا۔
پنجاب میں بین الاضلاع سفر کے لیے کرونا سرٹیفکٹ کی شرط ختم
سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاع مشروط سفری پابندی پر تشویش کا اظہار کیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آرڈیننس 2020 کے ذریعے بین الاضلاع سفر پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس حکم کے تحت یہ پابندی لگائی گئی؟ آرٹیکل 15 وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے۔
عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الاضلاع مشروط سفری پابندی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ ڈاکٹروں کی ضروریات پوری کریں۔ عدالت کا ڈاکٹروں کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کا بھی فوری ازالے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب حکومت سے بھی کرونا وائرس سے نمٹنے اور امدادی کام کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
عدالت نے وفاق اور صوبوں کے تحریری جواب کا جائزہ لینے کے بعد از خود نوٹس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کا پہلا از خود نوٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کرونا سے نمٹنے کے لیے ملک میں موجود 'ناکافی سہولیات' پر پہلا از خود نوٹس 10 اپریل کو لیا تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل، سیکرٹری صحت، وزارتِ داخلہ اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹس جنرلز اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس جاری کیے تھے اور ان سے جواب طلب کیا گیا تھا۔
حکومت کی ججز کو بریفنگ
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کو حکومت کی طرف سے کرونا وائرس کے معاملے پر اِن کیمرہ بریفنگ بھی تھی جس کا سپریم کورٹ کی طرف سے اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق، وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا اور بتایا کہ ملک بھر کے تمام اسپتالوں کی ایمرجنسی سروس 24 گھنٹوں کے لیے کھلی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پرائیوٹ اسپتالوں کو لاک ڈاؤن کے دوران امور کی انجام دہی سے نہیں روکا گیا۔ کرونا وائرس کے تدارک کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اور اب تک اندازوں سے کم کرونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور اموات بھی کم ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے قرنطینہ سینٹرز اور ٹیسٹ کی سہولیات کے حوالے سے بھی ججوں کو آگاہ کیا اور بتایا کہ اسپتالوں کی او پی ڈیز مرحلہ وار کھولی جائیں گی۔
سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق، چیف جسٹس گلزار احمد کی زیرِ صدارت پانچ ججز کو مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق بھی آگاہی فراہم کی گئی۔
بریفنگ میں چیئرمین این ڈی ایم اے نے وینٹی لیٹرز، طبی آلات اور حفاظتی انتظامات کے بارے میں بتایا کہ کرونا کی تشخیص کے لیے مزید لیبارٹریاں بنائی جا رہی ہیں۔
عدالت کو 'احساس پروگرام' کی سربراہ ثانیہ نشتر نے بتایا کہ حکومت نے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کی مدد کے لیے 12 ہزار روپے دینے کا پروگرام شروع کیا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو دی گئی بریفنگ کے نتیجے میں ملک میں عوامی صحت اور امداد سے متعلق مسائل میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر بریفنگ طلب کی تھی۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کو تشویش تھی کہ حکومت کی جانب سے غریب عوام کے لیے اعلان کردہ امدادی رقم صرف سفارشیوں تک ہی محدود نہ رہ جائے۔