رسائی کے لنکس

بھارت دفاعی اخراجات میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یورپی ملک سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں واقع 'انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' (سپری) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت دفاعی اخراجات کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ بھارت کو پہلی مرتبہ یہ مقام حاصل ہوا ہے جب کہ صرف امریکہ اور چین اس سے آگے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2018 کے مقابلے میں سال 2019 کے دوران بھارت کے دفاعی اخراجات میں 6.8 فی صد کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد اس کا حجم 71 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔

اگر 1990 سے 2019 کے درمیان کی 30 سالہ مدت پر نظر ڈالیں تو بھارت کے ملٹری اخراجات میں 259 فی صد اضافہ ہوا ہے جب کہ سال 2010 سے 2019 کے درمیان 37 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2010 میں بھارت کے دفاعی اخراجات اس کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.7 فی صد تھے جو 2019 میں کم ہو کر 2.4 فی صد پر آ گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے دفاعی اخراجات میں اضافے کا ایک سبب پاکستان اور چین کے ساتھ کشیدہ حالات بھی ہیں۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے بھی بھارت کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2010 سے 2019 کے دوران دفاعی اخراجات میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی فوج کا بجٹ 10.3 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

جی ڈی پی کے لحاظ سے پاکستان کے دفاعی اخراجات کو دیکھیں تو اس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سال 2010 میں پاکستان کا دفاعی بجٹ ملکی جی ڈی پی کا 3.4 فی صد تھا جو گزشتہ سال بڑھ کر 4 فی صد ہو گیا ہے۔

بھارت کے دفاعی اخراجات میں اضافے کے معاملے پر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات دفاعی اخراجات میں اضافے کا بڑا سبب ہیں۔

ان کے بقول "بھارت گزشتہ 25 برسوں سے دہشت گردی جھیل رہا ہے۔ بھارت میں کئی بڑے، بڑے دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ آج بھی جمّوں و کشمیر میں دہشت گردی جاری ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں مدبھیڑ ہوتی رہتی ہے جس میں ایک، دو دہشت گرد اور تین، چار فوجی مارے جاتے ہیں۔"

شنکر پرساد کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے اتحاد سے بھارت کو ایک خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے دفاعی اخراجات بھی بڑھانے پڑتے ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کے ساتھ بھارت کا تنازع کشمیر پر ہے جسے پاکستان اپنا حصہ اور بھارت اپنا "اٹوٹ انگ" قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب چین کے ساتھ بھی بھارت کا سرحدی تنازع چل رہا ہے۔

چین، اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ چین کے حالیہ نقشے میں بھی اروناچل پردیش کو چین کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

شنکر پرساد کے مطابق چین اور پاکستان دونوں ملکوں کا بھارت پر دباؤ ہے۔ بھارت کو دو طرفہ خطرات لاحق ہیں۔ لہٰذا اسے محدود دفاعی بجٹ میں دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے متصل کشمیر کی 'لائن آف کنٹرول' پر روزانہ بہت زیادہ گولہ بارود خرچ ہوتا ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

شنکر پرساد کے بقول بھارتی فوج کی نفری تقریباً 15 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی تنخواہوں اور پنشن کے لیے بھی بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگی طیاروں، ایئر ڈیفینس میزائل سسٹم، ہیلی کاپٹر، جنگی بحری جہازوں، توپوں، بندوقوں اور گولہ بارود پر آنے والے اخراجات الگ ہیں۔

شنکر پرساد نے مزید کہا کہ دفاعی بجٹ کا 25 سے 30 فی صد حصہ پنشن اور الاؤنس کی ادائیگی میں جاتا ہے۔ اخراجات اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جدیدکاری کے لیے پیسہ ہی نہیں بچتا۔ شنکر پرساد کا دعویٰ ہے کہ بھارتی افواج ماڈرنائزیشن میں کافی پیچھے رہ گئی ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں غریب ملک ہیں اور دونوں ملکوں میں مسائل کا انبار ہے۔ لیکن یہ دونوں ملک عوامی ضروریات پر خرچ کرنے کے بجائے دفاعی اخراجات زیادہ کرتے ہیں۔

اس معاملے پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) شنکر پرساد کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو اپنے دفاعی اخراجات کم کرنے چاہئیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالات کے تحت دفاع پر خرچ کرنا کم از کم بھارت کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔

شنکر پرساد نے کہا کہ 'سپری' کی رپورٹ میں بھارت کو دفاع پر خرچ کرنے والا تیسرا بڑا ملک بتایا گیا ہے۔ اس سے غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے۔ ان کے خیال میں بھارت تیسرا بڑا ملک تو بن گیا ہے لیکن ہتھیاروں کے علاوہ بھی بہت سے شعبے ہیں جہاں بہت زیادہ اخراجات ہو رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG