تین مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کا دن منایا جا رہا ہے، لیکن دنیا آزادی صحافت یا آزادی اظہار کی کسی ایک ڈیفینیشن یا تعریف پر صحیح معنوں میں متفق نہیں ہے، بالکل اسی طرح جس طرح یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ جو چیز ایک گروپ کے لئے جدوجہد آزادی ہے، وہ کسی دوسرے فریق کے لئے دہشت گردی کیوں ہے۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی آزادی صحافت کی کہ اس کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے اور مختلف مفادات رکھنے والے اپنے مفادات کے مطابق اس کی توضیح کرتے ہیں۔ اور دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی صورت حال بھی مختلف ہے۔
اگر دنیا کے ترقی یافتہ اور دولت مند ملکوں میں میڈیا ہاؤسز اپنے تجارتی مفادات کے لئے صحافت کو استعمال کرتے ہیں تو پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں قومی سلامتی اور قومی مفادات کے نام پر صحافت کو اس لئے پابند سلاسل بنانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کی بدعنوانیاں صحافت کے ذریعے منظر عام پر نہ آ جائیں۔
مشرق وسطی ہو یا افریقہ، مشرق بعید ہو یا جنوبی ایشیا، صحافت کی حالت کوئی قابل فخر نہیں ہے۔ اور ان خطوں میں مقامی تنظیمیں آزادی صحافت کے لئے جدوجہد اور بین الاقوامی صحافتی اور حقوق انسانی کی تنظیمیں ان کی مدد کرتی رہتی ہیں۔
پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں آزادی صحافت کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے وہاں آزادی صحافت پر کسی نہ کسی انداز سے کچھ نہ کچھ پابندیاں رہیں، لیکن وہ اتنی شدید نہ تھیں جتنی 50 کی دہائی کے آخر میں فوجی آمر ایوب خان کے مارشل لا کے بعد اس وقت ہوئیں جب پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس نافذ کیا گیا۔
اس کے بعد تقریر و تحریر پر پابندیاں شدید تر ہو گئیں اور ساتھ ہی صحافیوں کی معاشی بدحالی بھی بڑھتی گئی۔ اور اسی تناسب سے آزادی صحافت کے حصول اور صحافیوں کی معاشی بہتری کے لئے تحریک میں میں بھی شدت آتی گئی۔ اس تحریک کے کئی بڑے ناموں میں اسرار احمد، منہاج برنا، ایم اے شکور، نثار عثمانی بھی شامل ہیں۔
1970 کے عشرے کے وسط تک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یا پی ایف یو جے کی کوششوں سے صحافیوں کی بہتری کے لیے ویج بورڈ ایوارڈز آئے اور ان کی معاشی حالت کچھ بہتر ہوئی اور دوسری جانب پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس اور صحافت پر پابندیوں کے خاتمے کی جدوجہد جاری رہی۔ اس کے ساتھ ہی آل پاکستان نیوز پیپرز اپلائیز کنفیڈریشن بھی اس جدوجہد میں شامل ہوئی جس میں کاتبوں سمیت صحافت سے وابستہ تمام کارکن شامل تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا سول جمہوری دور حکومت تھا، جس میں وعدوں کے باوجود آرڈینینس ختم نہیں کیا گیا۔
اور پھر جولائی 1977 میں ملک میں ایک بار پھر سویلین حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ضیاالحق کا مارشل لا نافذ ہو گیا۔ اس دوران بڑی کوششوں سے پی ایف یو جے میں گروپ بندیاں کرائی گئیں اور آج اس نوعیت کے تین چار گروپ وجود میں آ چکے ہیں۔
صحافی مختلف نظریاتی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ اور کئی ویج بورڈز کے حصول سے صحافیوں اور صنعت کے دوسرے کارکنوں کو جو فوائد حاصل ہوئے تھے، وہ اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ کیونکہ اب صحافیوں کو کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے اور وہ ان تمام مراعات سے محروم ہو جاتے ہیں، جو انہیں ویج بورڈ کے تحت ملتی تھیں۔ پھر ٹیلی ویژن کے ارتقا اور پھیلاؤ نے صحافیوں کو مختلف اقسام میں بانٹ دیا، جس کا فائدہ میڈیا ہاؤسز اور حکومتوں کو پہنچ رہا ہے۔
حبیب خان غوری 70 کے عشرے میں پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ایف یو جے نے کئی عشروں تک جو جدوجہد کی تھی، اسی کے نتیجے میں ملک میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈینینس ختم ہوا۔ بڑی حد تک آزادی تحریر و تقریر ملک میں بحال ہوئی۔
لیکن پھر پی ایف یو جے کی تقسیم در تقسیم اور ٹیلی ویژن کے وجود میں آنے کے بعد یونین کی قوت کم ہوتی گئی۔ اب زیادہ تر اختیارات میڈیا ہاؤسز کے ہاتھوں میں ہیں اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ جس کی اہمیت ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور روایتی میڈیا کا مقام و مرتبہ بتدریج گھٹ رہا ہے۔
امیر محمد خان بھی اس جدوجہد کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ 70 کے عشرے کے وسط میں وہ اے پی این ای سی کے کراچی میں جنرل سیکرٹری تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ عشروں کی جدوجہد، جیلوں کی صعوبتیں کاٹنے اور کوڑے کھانے کے بعد جو کچھ حاصل کیا گیا تھا وہ سب کچھ اب ختم ہو گیا ہے۔ صحافی تقسیم ہو گئے ہیں۔ صحافت کم اور مفادات کے حصول کی جدوجہد زیادہ ہو گئی ہے۔ صحافیوں کی بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور جن کی ملازمتیں ہیں بھی، وہ بھی مالکان کے رحم و کرم پر ہیں جن کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
امین یوسف 2011 میں پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب یہ تنظیم تقسیم ہو چکی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی صحافت پر ہمیشہ ہی آزمائش کا دور رہا ہے۔ صحافیوں نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔ لیکن صورت حال زیادہ تبدیل نہیں ہو سکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوجی آمروں نے ہی نہیں، بلکہ جمہوری اور سویلین حکومتوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحیثیت صحافی ہمیں خود اپنی کارگزاریوں پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔ خود احتسابی کے عمل سے بھی گزرنا ہو گا۔ آج سوشل میڈیا تیزی سے پھیل رہا ہے اور روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے۔ ہمیں اسے بھی پیش نظر رکھ کر آگے قدم بڑھانا ہوں گے۔