آسٹریلیا کی ہائی کورٹ نے گزشتہ سال جاری کئے گئے اُس وارنٹ کو غیر قانونی قرار دیا ہے جس میں پولیس کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ ایک صحافی کے گھر پر چھاپہ مارے۔
گزشتہ سال جون میں فیڈرل پولیس نے 'نیوز کارپوریشن' کی رپورٹر، انیکا سمتھرسٹ کے گھر داخل ہو کر ان کے کمپیوٹر اور فون سے حاصل کردہ ڈیٹا کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
اس ڈیٹا کو اس لئے قبضے میں لیا گیا تھا تاکہ حکام اُن خفیہ ذرائع کو شناخت کر سکیں، جن کے حوالے سے رپورٹر انیکا نے اپنی خبر میں حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ آسٹریلوی شہریوں کی نگرانی کیلئے انٹیلی جنس اداروں کو مزید اختیارات دے رہے ہیں۔
بدھ کے روز اپنے فیصلے میں، ہائی کورٹ کے سات رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ جاری کردہ وارنٹ میں رپورٹر انیکا کی جانب سے مخصوص جرم کے مبینہ ارتکاب کا ذکر نہیں تھا۔ اس لئے وارنٹ کوئی قانونی حییثیت نہیں رکھتا۔ تاہم، پولیس نے اپنے فیصلے میں قبضے میں لئے گئے ڈیٹا کی واپسی کا ذکر نہیں کیا۔
اپنے بیان میں فیڈرل پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرے گی۔
فیصلے کے بعد، 'نیوز کارپوریشن آسٹریلیشیا' کے انتظامی سربراہ، مائیکل ملر کا کہنا تھا میڈیا اداروں کو کسی بھی وارنٹ کی تعمیل سے پہلے وارنٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
رپورٹر انیکا کے گھر چھاپےکے ایک روز بعد، فیڈرل پولیس نے خفیہ ذرائع کی شناخت کیلئے، سڈنی میں قائم آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا تھا۔
اِن چھاپوں کی وجہ سے میڈیا اداروں، صحافی تنظیموں اور شہری آزادیوں کیلئے کام کرنے والے گروپوں نےآزادیِ صحافت کے حوالے سےسخت غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔
جون میں مارے گئے چھاپوں کے بعد، نیو یارک میں قائم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' نے کہا تھا کہ پولیس کے ان اقدامات کی وجہ سے آسٹریلیائی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، کیونکہ آسٹریلیا کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں آزادی صحافت کا احترام کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ رپورٹروں کو اپنے کام کو سرانجام دینے کیلئے تمام قانونی اور صحافتی آزادیاں حاصل ہونی چاہئیں۔
صحافیوں اور شہری حقوق کیلئے کام کرنے گروپوں نے بدھ کے روز آنے والے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ فیصلے کی بنیاد تکنیکی کمزوری کو بنایا گیا ہے۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ فیصلے میں آزادیِ صحافت سے متعلق مسائل کے حل کے کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی آسٹریلوی قانون میں آزادی صحافت کو تحفظ دینے کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔