رسائی کے لنکس

کیا سوڈان میں خواتین کے ختنے پر پابندی پر عمل ہو سکے گا؟


نسوانی ختنے کے خلاف لیبیا میں ایک مظاہرہ۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ہر سال 20 لاکھ بچیاں اس تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہیں۔
نسوانی ختنے کے خلاف لیبیا میں ایک مظاہرہ۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ہر سال 20 لاکھ بچیاں اس تکلیف دہ عمل سے گزرتی ہیں۔

ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کوثر علی اس واقعہ کو ابھی تک نہیں بھولی، جب چند عورتوں نے اسے پکڑ کر زبردستی بستر پر ڈالنے کے بعد اس کے نسوانی اعضا کاٹ ڈالے تھے، اس وقت کوثر ساڑھے پانچ چھ سال کی تھی۔ آج بھی اس تکلیف کا خیال آتے ہی اس پر جھرجھری طاری ہو جاتی ہے۔

اس وقت کوثر نہیں جانتی تھی کہ اس کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں اسے پتا چلا کہ جس معاشرے میں وہ پیدا ہوئی ہے، وہاں تقریباً ہر عورت کو زندگی میں ایک بار اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کے 2014 کے ایک سروے کے مطابق، عرب دنیا میں 15 سے 49 سال کی عمروں کے درمیان 87 فی صد عورتیں اس عمل سے گزر چکی ہیں۔

نسوانی اعضا کو کاٹنا، یا ختنہ کرنا طویل عرصے سے معاشرے کا حصہ رہا ہے۔ کئی عشروں سے اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر وہاں کی حکومتوں نے کان دھرنے شروع کر دیے ہیں۔

سوڈان کی حکومت اس عمل کو خلاف قانون قرار دینے اور مرتکب افراد کو تین سال قید تک کی سزا مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے، جب کہ مصر نے 2008 میں اس پر پابندی لگا دی تھی اور 2016 میں اس میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے قانون بنایا تھا۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ عمل، جسے ایف جی ایم کا نام دیا گیا ہے، خواتین کے خلاف سنگین نوعیت کا امتیازی برتاؤ ہے۔ یہ ظلم بچیوں پر کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خون بہہ جانے کا خدشہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ انفکشن ہو سکتا ہے اور بعد ازاں جب وہ ماں بنتی ہے تو بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

براعظم افریقہ، مشرق وسطیٰ اور کئی ایشیائی ملکوں میں لاکھوں لڑکیاں ایف جی ایم کے عمل سے گزرتی ہیں۔ ان معاشروں میں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اس سرجری سے خواتین میں جنسی خواہش کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ محفوظ رہتی ہیں۔ اس تصور کو عام کرنے میں زیادہ تر مذہبی رہنماؤں کا ہاتھ ہے۔ تاہم، اس رسم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اس کے خلاف سخت پابندی عائد کی جانی چاہیے۔

سوڈان کے ایک مذہبی لیڈر محمد ہاشم الحکیم ایف جی ایم کے مخالف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مذہبی لیڈروں کو لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ اس رسم کا تعلق ہماری معاشرتی روایات سے ہے، جس پر مذہب کی ملمع کاری کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ رسم اسلام کے ظہور میں آنے سے پہلے ہمارے معاشرے میں چلی آ رہی ہے اور کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس تکلیف دہ رسم کا تعلق مذہب سے ہے۔

کوثر علی کی 35 سالہ بیٹی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اپنی ماں کی شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اسے اس تکلیف دہ عمل سے بچایا۔ وہ اپنے سکول کی کلاس فیلوز میں واحد لڑکی تھیں جنہیں اس رسم کی بھینٹ نہیں چڑھنا پڑا۔ وہ اس مہم کو اگے بڑھائیں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ اس رسم کی مخالفت کرنے والوں کو اپنے اندر مزید طاقت اور توانائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ معاشرتی رسمیں اور رواج لکھے ہوئے قانون سے زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔

سوڈان میں ایف جی ایم کے خلاف قانون نافذ کر دیا گیا ہے، لیکن لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی تحریک چلانے والوں کو خدشہ ہے کہ قانون کے نفاذ کے ساتھ یہ چیز زیر زمین چلی جائے گی اور چلتی رہے گی۔

بچوں کی فلاح و بہبود کے سوڈان کی قومی کونسل کی سیکرٹری جنرل عثمان شیبا کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو اذیت دینے کے اس عمل کو حکومت کبھی قبول نہیں کرے گی۔

ایف جی ایم کے خلاف مہم کی ایک سرگرم کارکن نمکو علی کہتی ہیں کہ صرف قانون سازی ہی کافی نہیں ہے۔ اصل ضرورت خواتین کو بااختیار بنانے کی ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایف جی ایم کی تکلیف کم و بیش ایک ماہ تک جاری رہتی ہے۔ پیچیدگیاں پیدا ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ طول کھینچ سکتا ہے اور جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن متاثرہ خاتون کی نفسیات پر اس کے اثرات عمر بھر برقرار رہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG