جرمنی میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی آمد میں اضافے سے 2016 میں ان لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جنہیں نازک نسوانی اعضاء کی قطع و برید کے عمل سے گذرنا پڑا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں رہنے والی 58 ہزار سے زیادہ لڑکیاں ایسی ہیں جن کے نازک نسوانی اعضاء کی جراحی ہو چکی ہے۔
خواتین کے حقوق کی تنظیم ’ٹیری ڈی فیمس‘ کی ترجمان شارلٹ وہیل نے کہا کہ یہ تعداد 2015 کے مقابلے میں 10 ہزار کا اضافہ ہے۔
عورتوں کے حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ اس وقت جرمنی میں کم ازکم 13 ہزار لڑکیوں کو نازک اعضاء کی جراحی کا خطرہ ہے جس پر جرمنی میں پابندی ہے۔
شارلٹ کا کہنا تھا کہ اگر اس کا موازنہ سن 2015 سے کیا جائے تو یہ 4 ہزار کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ جرمنی میں بڑے پیمانے پر ایسے ملکوں سے تارکین وطن کی آمد ہے جہاں نازک نسوانی اعضا ء کی قطع و برید وہاں کی روایات میں شامل ہےجس کی نمایاں مثال صومالیہ اور عراق ہیں۔
سن 2016 میں دو لاکھ 80 ہزار کے لگ بھگ تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے جن کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں جاری لڑائیوں سے اپنی جانیں بچا کر بھاگنے والوں کی تھی۔ اسی طرح پچھلے سال 8 لاکھ 80 ہزار تارکین وطن جرمنی میں داخل ہوئے۔
ترجمان شارلٹ کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ جرمنی میں آنے والوں کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے اور ان کمیونیٹز سے بات کی جائے جن کے ہاں یہ چیز ایک ثفافتی رسم کے طور پر رائج ہے۔
افریقہ ، ایشیا اور مشرق وسطی ٰ کے کچھ ملکوں کے کمیونیٹز میں یہ روایت موجود ہے۔