خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ندیم جوزف کے قتل کے خلاف انسانی حقوق کے کارکن اور مسیحی برادری کے افراد سراپا احتجاج ہیں۔
احتجاج میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شریک ہیں جو کہ ندیم جوزف کے قتل کی مذمت کر رہے ہیں۔
پشاور کے علاقے ٹی وی کالونی سے تعلق رکھنے والے ندیم جوزف کو ایک ماہ قبل دو جون کو ان کے پڑوسی نے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق ندیم جوزف پر پڑوسیوں نے اس لیے حملہ کیا کیوں کہ وہ کسی غیر مسلم کو اپنے پڑوس میں گھر خریدنے یا اس میں رہنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے۔
ندیم جوزف کو زخمی حالت میں پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 30 جون کو انتقال کر گئے تھے۔
پشاور کی پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تاہم واقعے میں ملوث دو بھائی 30 جون سے ہی روپوش ہیں۔
مسیحی برادری کے رہنما جیکب آکسٹن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسپتال میں ندیم جوزف کے پانچ آپریشن کیے گئے مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔
جیکب آکسٹن کا کہنا تھا کہ ان کے برادری اور متاثرہ خاندان حکومت سے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کے سابق سربراہ اور پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شیر محمد خان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ نہ صرف پاکستان کے آئین، قانون اور انسانی حقوق بلکہ پختون روایات کے بھی منافی ہے۔
انہوں نے اس واقعے کو حکومت کے لیے بڑا چیلنج بھی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کو جائیداد خریدنے یا رہائش اختیار کرنے کے حق سے محروم کر سکے۔
احتجاج میں شامل ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ہارون سر بریال نے ندیم جوزف کے قتل کو مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت واقعے میں ملوث قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے گی اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت غیر مسلم اقلیتی برادری کے لوگوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں جائیداد خریدنے اور کاروبار کرنے کا حق حاصل ہے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ صوبائی اسمبلی اور مسیحی برادری کے رہنما ولسن وزیر کا کہنا تھا کہ ندیم جوزف کے انتقال کے بعد انہوں نے فوری طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سے ملاقات کی اور ان کی موجودگی میں وزیر اعلیٰ نے پولیس حکام کو فون کرکے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے۔