امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے شمالی صوبے سمنگان میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر پر طالبان کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے تمام فریقوں سے تشدد کم کرنے زور دیا ہے۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت ایبک میں پیر کو ہونے والا طالبان کا حملہ ان کی طرف سے بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے قبل تشدد کم کرنے کے عزم کی نفی ہے۔
خلیل زاد نے منگل کو اپنی متعدد ٹوئٹس میں کہا کہ "ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز مواد کا استعمال ناقابلِ قبول ہے۔"
ان کے بقول "یہ کارروائی ان لوگوں کو مضبوط کرے گی جو امن کی مخالفت کرتے ہیں اور ایسا کرنا بگاڑ پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔" خلیل زاد نے مزید کہا کہ افغانستان میں تمام فریقوں کو تشدد کم کرنا ہوگا۔
پیر کو افغانستان کے شمالی صوبے سمنگان کے دارالحکومت ایبک میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 11 افغان سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے جب کہ اس حملے میں 60 سے زائد عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
افغان صدارتی ترجمان صدیق صدیقی نے کہا ہے کہ پیر کے دن طالبان کی جانب سے صوبہ سمنگان کے شہر ایبک پر حملہ ''طالبان اور افغان حکومت کے مابین پڑنے والی نئی دراڑ کا غماز ہے''۔
منگل کو صدارتی ترجمان نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ فروری میں ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد پر تیار نہیں۔ یہ بات وائس آف امریکہ کی افغان سروس نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان حکومت نے کہا کہ امن عمل سے متعلق تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جب کہ طالبان نے کیے گئے اپنے وعدے نہیں نبھائے۔
مبینہ طور پر چار عسکریت پسندوں نے افغان نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ ( این ڈی ایس) کے دفتر کے مرکزی دروازے کو دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی سے نشانہ بنایا اور اس کے بعد انہوں نے عمارت پر حملہ کر دیا۔
صوبائی گورنر عبدالطیف نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ حملے کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں اور حملہ آوروں کے درمیان کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے دوران چاروں حملہ آور ہلاک ہو گئے۔
حال ہی میں افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں پر امریکہ اور بین الااقومی برادری تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی میں پیش رفت ہو چکی ہے لیکن بعض قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر فریقین کے درمیان تعطل برقرار ہے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ "ہم دوحہ میں 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے 135 دن کے سنگ میل پر پہنچ گئے ہیں۔"
ان کے بقول اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کی تعداد میں کمی، پانچ فوجی اڈوں کو خالی کرنا اور نیٹو اتحاد کی فورسز میں کمی بھی اسی معاہدے کا حصہ تھا جس پر عمل درآمد کیا گیا۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے عمل میں سست روی کے باوجود بڑی پیش رفت ہو چکی ہے۔ ان کے بقول طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیموں نے بین الافغان مذاکرات کے لیے درکار لوازمات کے لیے تیار ی کر لی ہے۔
زلمے خلیل زاد نے اگرچہ تسلیم کیا ہے کہ طالبان کی طرف سے جاری تشدد میں اب تک کسی امریکی کی جان نہیں گئی ہے۔ تاہم ان کے بقول انسداد دہشت گردی کے معاملے پر مزید پیش رفت کی ضروت ہے۔
اُن کے بقول حالیہ عرصے میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور بغیر کسی وجہ کے بڑی تعداد میں افغان شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔
خلیل زاد نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا کہ "جیسا کہ ہم معاہدے عمل درآمد کے اگلے مرحلے کے منتظر ہیں۔ ہمارا نکتہ نظر شرائط پر مبنی رہے گا۔ ہم قیدیوں کی رہائی، تشدد میں کمی ،انسداد دہشت گردی کے وعدوں پرعمل درآمد اور بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور اس میں پیشرفت کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔"
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فرروری کو طے پانے والے معاہدے کے 135 دنوں کے اندر امریکہ نے اپنی فورسز کی تعداد کو کم کر کے 8600 کی سطح پر لے آنا تھا۔
طالبان نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ وہ اپنے زیرِ اثر علاقوں میں کسی گروپ کو پرتشدد سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکہ یا کسی دوسری ملک کے لیے خطرہ ہوں گے۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو نا تھا اگرچہ ابھی افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں میں سے چار ہزار سے زائد کو رہا کر دیا ہے جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے 700 سے زاہد قیدی رہا کر دیے ہیں۔
امن معاہدے کے 135 دن مکمل ہونے پر طالبان کا بیان
امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ طے ہونے کے 135 دن کے بعد طالبان نے اپنی کارروائیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے امریکی اور افغان فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
طالبان نے ایک بیان میں افغانستان میں موجود پانچ فوجی اڈوں پر غیر ملکی فوجوں کی نفری میں تخفیف کی تعریف کی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی کی شق پر مناسب انداز میں عمل نہیں کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے پابندیاں عائد کیے جانے والے افراد کی فہرست سے طالبان لیڈروں کے نام تاحال حذف نہیں کیے گئے ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے طالبان نے غیر ملکی فوجوں پر حملے نہیں کیے ہیں۔ تاہم امریکی فوجوں نے افغانستان کی فوجوں کے ساتھ مل کر طالبان کی پوزیشنوں پر بمباری کی ہے۔
بیان کے مطابق لوگر، بادغیص، میدان وردک، غزنی، زبل، اوروزگان، ہلمند اور قندھار میں امریکی فوجوں نے ڈرون حملے جاری رکھے ہیں جو معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ طالبان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ امن معاہدے پر عمل درآمد کی غرض سے تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔
افغانستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے سنہ 2020 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 2957 شہریوں کی ہلاکت کی نشاندہی کی ہے۔ یہ ہلاکتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فی صد کم ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے روسی وزیر خارجہ سر گئی لاوروف سے پیر کو فون پر بات کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری ایک یبان کے مطابق وزیر خارجہ پومپیو اور ان کے روسی ہم منصب لاوروف نے اقوامِ متحدہ کے قیام کے 75 ویں سالگرہ کی یاد منانے کے لیے مستقبل قریب میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے رہنماؤں کا اجلاس بلانے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بیان کے مطابق امریکی اور روسی وزرائے خارجہ نے افغانستان سمیت دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔