امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد پاکستان، قطر اور ازبکستان کے دورے کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد بین الافغان مذاکرات شروع کرانے کے لیے کی جانے کوششوں کو تیز کرنا ہے۔
انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن امریکہ کے ایڈم بہلر بھی اس دورے میں زلمے خلیل زاد کے ہمراہ ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اتوار ایک بیان میں کہا کہ زلمے خلیل زاد کے بین الافغان مذاکرات سے قبل دورے کا مقصد تشدد میں کمی اور قیدیوں کی رہائی جلد ممکن بنانا ہے۔
بیان کے مطابق افغان امن عمل، اقتصادی ترقی اورعلاقائی رابطے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس دورے میں امریکی وفد افغانستان کی اقتصادی بحالی اور خطے میں پائیدار امن و استحکام کے فروغ جب کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا بھی جائزہ لے گا۔
اس دوران خلیل زاد اور بہلر کا وفد افغان عہدیداروں سے کرونا وائرس کے سبب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بھی ملاقاتیں کرے گا۔
امریکی حکام کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں نمایاں پیش رفت ہو چکی ہے۔ اب تک افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں میں سے 75 فی صد کو رہا کر دیا ہے جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 600 سے زائد قیدی رہا کیے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی توجہ کا بنیادی محور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاملات طے پانے کے بعد افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا ہے۔
ان کے بقول قیدیوں کی رہائی کے عمل میں قابلِ ذکر پیش رفت کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہو جائیں۔
زاہد حسین کے مطابق افغانستان میں پائیدار امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خطے کے ممالک کا اس پر اتفاق رائے نہ ہو۔ اب امریکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں ساتھ لے کر چلنے کا خواہاں ہے۔ زلمے خلیل زاد کا دوحہ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد اور تاشقند جانا انہی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ امریکہ اس امر پر بھی غور کر رہا ہے کہ اس کی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت کو خود انحصاری کی راہ پر کس طرح گامزن کیا جا سکتا ہے۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار عابد سہلری کا کہنا ہے کہ ابھی تک افغانستان کو امریکہ سے ملنے والی معاونت اسٹریٹجک نوعیت کی تھی لیکن افغانستان میں تعمیر نو بھی نہایت اہم ہے اور اس کے لیے اسٹریٹجک اعانت کو مالیاتی و اقتصادی طور پر قابلِ عمل منصوبوں کی طرف منتقل کرنا ہوگا۔
عابد سلہری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک امریکہ کی طرف سے ایک طویل عرصے سے کثیر رقم ڈالرز کی شکل میں افغانستان کو مل رہی تھی تاہم اس کے استعمال سے متعلق امریکی کانگریس میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ لہذا دیگر کوششوں کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی توجہ دی جا رہی ہے کہ افغانستان اقتصادی طور پر خود مختار ہو سکے اور وہاں اقتصادی بحالی کا عمل بھی شروع کیا جا سکے۔
ان کے بقول افغانستان کی تعمیر نو کے لیے کثیر سرمایہ کاری درکار ہوگی جب کہ اس سلسلے میں اگر امریکہ اور چین ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے تو یہ مثبت پیش رفت ہو گی۔ یہ خطے کے لیے نہایت خوش آئندہ بات بھی ہو گی۔