امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک ہی دن میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ حد سے بڑھ گئی ہے۔ ایک ہی دن میں ایک سو بتیس افراد کرونا وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس وقت ریاست کے صرف ایک مقامی ہیلتھ سسٹم جیکسن ہل میں دو سو کے قریب ہیلتھ ورکر کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی خبریں نیویارک سے بھی آرہی تھیں۔ مگر اب وہاں صورتِ حال بہت مختلف ہے اور نہ صرف اس وائرس کے بہت کم مریض زیرِ علاج ہیں بلکہ اموات کا سلسلہ بھی رک سا گیا ہے۔
اب نیویارک اس قابل ہے کہ جن ریاستوں میں وائرس کا زور ہے، انہیں وینٹیلیٹرز، ماسک، گاؤن اور دواؤں کی پیشکش کر سکے۔ اس کے اپنے ہیلتھ کئیر ورکرز اس وائرس کے خلاف لڑائی میں مدد کیلئے دیگر ریاستوں میں جا رہے ہیں اور یہ سب وہ مدد ہے جو چند ماہ پہلے نیویارک کے ہسپتالوں کا سہارا بنی تھی۔
ڈاکٹر اعجاز احمد نیویارک شہر کو کئی آئی سی یو یونٹس مہیا کرنے میں مدد دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پوری ریاست نیویارک میں کرونا کے فعال کیسز سات سو یا آٹھ سو سے زیادہ نہیں ہیں، نئے کیسز زیرو تک پہنچ رہے ہیں اور روزانہ اموات چار یا پانچ سے زیادہ نہیں ہیں۔
اس کی وجہ، ان کے بقول، لوگوں میں اس وائرس کے بارے میں آگہی پیدا ہوئی ہے۔ اب وہ ماسک بھی پہننے لگے ہیں اور سماجی فاصلے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ریسٹورنٹس کھل جانے کی وجہ سے اندر بیٹھ کر کھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، پارٹیاں بھی ہو رہی ہیں اور نوجوان طبقہ احتیاطی تدابیر کی پرواہ نہیں کر رہا۔
پھر ہر روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ دیگر ریاستوں سے نیویارک آتے ہیں جبکہ اس وقت اڑتالیس امریکی ریاستوں میں کرونا وائرس کا زور ہے۔ چنانچہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اکتوبر یا نومبر میں نیویارک میں ایک مرتبہ پھر کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کا احساس نیویارک کی انتظامیہ کو بھی ہے۔ چنانچہ منگل کے روز نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو نے اعلان کیا کہ کم از کم بائیس امریکی ریاستوں سے نیو یارک آنے والوں کو ایک ٹریول فارم بھرنا ہو گا جس میں وہ بتائیں گے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں، نیویارک میں کہاں رہیں گے اور پھر ساتھ ہی انہیں چودہ روز تک قرنطینہ میں بھی رہنا ہوگا اور اگر ان ہدایات پر عمل نہ کیا تو دو ہزار ڈالر تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
امریکی ٹیلیویژن نیٹ ورک سی این این پر بات کرتے ہوئے نیویارک سٹی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر آیزاک وائسفیوز نے کہاکہ اگرچہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں اور نہ ہی ایسی پابندیوں اور ضابطوں سے کوئی سیل بنائی جا سکتی ہے مگر گورنر کے عزائم نیک ہیں، وگرنہ لوگ تو ڈرائیو کر کے بھی نیویارک میں داخل ہو سکتے ہیں۔اس لئے وائرس نیویارک میں دوبارہ ابھر کر آسکتا ہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کی تعداد بڑھا کر، کونٹیکٹ ٹریسنگ سے اور باہر سے آنے والے لوگوں کیلئے قرنطینہ لازمی کر کے اسے روکا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز احمد کے بقول، اس وقت نیویارک پہلے سے کہیں بہتر طور پر وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ "اب ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد اور دیگر سہولتیں پہلے کی نسبت بہتر ہیں ۔ پہلے کی نسبت اب زیادہ سرعت سے دیگر شعبوں مثلاً زچہ بچہ وارڈ اور دیگر ایسے ہی شعبوں کو کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے تیار کیا جا سکے گا"۔
گورنر کومو کہتے ہیں کہ وہ ہسپتالوں کو حکم دیں گے کہ وہ اپنے ہاں نوے دن کا سامان تیار رکھیں۔ نیو یارک شہر کے مئیر بل دی بلاسیو نے بھی کہا ہے کہ نیو یارک شہر وفاقی حکومت یا عالمی مارکیٹوں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنے طور پر وینٹیلیٹرز، حفاظتی سامان اور کرونا وائرس کی ٹیسٹ کٹس تیار کرے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نیویارک کے ماؤنٹ سینائی ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں بستروں کی تعداد چورانوے سے بڑھا کر دو سو پینتیس کر دی گئی ہے۔ اور ایک ہال اور لابی کو کم بیمار مریضوں کے وارڈ میں تبدیل کر دیا ہے۔
نیو یارک میں نرسنگ ہومز میں کرونا وائرس سے اموات ملک کے دیگر حصوں کی طرح کافی رہی ہیں۔ اب ایک اور متنازعہ فیصلے پر نیو یارک کے گورنر کومو کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس بارے میں ڈاکٹر اعجاز احمد نے وائس آف امیریکہ کو بتایا کہ ابتداء میں جب ہسپتال مریضوں سے بھرے تھے اور تشویشناک حالت والے مریضوں کیلئے بستروں کی ضرورت تھی تب سوچا گیا کہ جو مریض بہتر حالت میں ہیں مگر ابھی ان کا علاج ہو رہا ہے انہیں ہسپتال سے کہیں اور منتقل کر دیا جائے مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں۔
چنانچہ گورنر کومو نے ان مریضوں کو نرسنگ ہومز میں منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن اس پر نرسنگ ہومز کی لابی نے اور نرسنگ ہومز میں رہنے والوں کے اہلِ خانہ نےبہت مزاحمت کی، چنانچہ ایسے مریضوں کو رکھنے کیلئے جے وڈ سنٹر کھولا گیا اور اب انہیں نرسنگ ہومز کے بجائے وہاں منتقل کیا جاتا ہے۔
نیویارک میں آئی سی یونٹ پرووائڈر اور کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر اعجاز احمد کہتے ہیں کہ اب نیویارک پہلے کی نسبت وائرس کا مقابلہ کرنے کی بہتر تیاری رکھتا ہے۔
نیویارک میں وائرس کے زور کے دنوں میں نرسنگ ہومز میں چونسٹھ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ مگر اب نیویارک نرسنگ ہومز ایسوسی ایشن کے سربراہ سٹیون ہینز کہتے ہیں کہ اب ہمیں معلوم ہے اس وائرس کا مقابلہ کیسے کرناہے۔
کولمبیا یونیورسٹی میں وبائی امراض کے شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر ڈبلیو ایان لپکن کا کہنا ہے کہ "صحت کا نظام اب پہلے سے بہتر ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ وائرس کس انداز میں انفیکشن پھیلاتا ہے اور ہماری ٹیسٹنگ، ذاتی حفاظت کے سامان، وینٹیلیٹرز اور صحت کے نظام کی دیگر ضرورتوں کو کیسے متاثر کرتا ہے"۔
راب گرفن یونیورسٹی آف ایلبنی میں ایمرجنسی مینیجمنٹ کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست نیویارک کو مستقبل میں کسی لاک ڈاؤن کے رولز ابھی سے طے کرنا ہوں گے۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف منی سوٹا کے پروفیسر اور محقق ڈاکٹر محمد فرید سوری نے کہا تھا کہ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ اگر نیویارک میں مارچ کے مہینے میں جلد لاک ڈاؤن کر دیا جاتا تو کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سولہ گنا کم کی جاسکتی تھی۔
نیویارک ایسا شہر ہے جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ روزانہ کی اجرت پر کام کرتا ہے یا ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ گھر پر رہ کر کام نہیں کر سکتے اور ان میں زیادہ تعداد افریقی امریکیوں کی ہے۔
چنانچہ، انہیں گھر سے نکل کر بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنا پڑتا ہے۔ پہلے بھی وائرس سے متاثر ہونے والوں میں ان ہی لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور اب بھی ان ہی لوگوں کو زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز احمد اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ نیویارک شہر کے منتخب پبلک ایڈووکیٹ جمانے ولیمز کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک ضروری ہے کہ لاک ڈاؤن جلد کیا جائے، مگر اسے کھولنے میں جلدی نہ کی جائے، بلکہ آبادی کے ان گروہوں کے لئے ضروریات زندگی مہیا کرنے کا انتظام بھی کیا جائے، جو اس وائرس سے صحت کےلحاظ سے بھی اور مالی طور پر بھی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
نیویارک کے حکام کہتے ہیں انہوں نے کرونا وائرس کے پہلے حملے سے بہت سبق سیکھا ہے اور امریکہ کی باقی ریاستوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔