افغانستان کے شمالی صوبے جوزجان کے مرکزی شہر شبرغان میں چند روز قبل ایک ایسی اہم تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے دو نائبین میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ اس تقریب میں صدر کے دستخط اور اعلان کے تحت ازبک جنگجو کمانڈر رشید دوستم کو باضابطہ طور پر 'مارشل' کا لقب دیا گیا۔
دراصل ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکی اعلیٰ عہدیداروں اور افغانستان کے کئی اہم سیاسی رہنماؤں کی مداخلت کے بعد اپنے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے مطالبے پر رشید دوستم کے اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ہے۔
یوں سابق وزیرِ دفاع احمد شاہ مسعود اور ان کے جانشین قاسم فہیم کے بعد رشید دوستم 'مارشل' کے عہدے پر فائز ہونے والے افغانستان کے تیسرے شخص بن گئے ہیں۔
شبرغان میں رشید دوستم کے قلعہ نما محل کے احاطے میں منعقدہ اس تقریب میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی جن میں اکثریت اُن ازبک افغان باشندوں کی تھی جو یا تو رشید دوستم کے تنخواہ دار اور مراعات یافتہ ہیں یا رشید دوستم کے قہر و غضب کے ڈر کی وجہ سے ہر وقت ان کے یا ان کے تنخواہ دار جنگجوؤں کے سامنے سرِ تسلیم خم رکھتے ہیں۔
افغانستان کی تاریخ میں مارشل کا عہدہ پانے والوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ تینوں کسی بھی فوجی یا سیکیورٹی درس گاہ سے فارغ التحصیل نہیں ہوئے۔ تینوں 1979 کے اواخر میں افغانستان کی سرزمین پر سابق سوویت یونین یا اس کے خلاف برسرِ پیکار مجاہدین سے لڑنے والے خود ساختہ کمانڈروں اور جنرلز کی صفِ اول میں شامل تھے۔
احمد شاہ مسعود اور قاسم فہیم تو ابتدا سے اپنے اختتام تک ایک ہی جماعت اور مکتبۂ فکر سے منسلک رہے جب کہ رشید دوستم کی وفاداریاں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
رشید دوستم کون ہیں؟
رشید دوستم سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین سے برسرِ پیکار افغان حکومت کے واحد کمانڈر تھے جنہوں نے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ وہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی روس کے سابق صدر بورس یلسن کے محبوب رہے تھے۔
چونسٹھ سالہ رشید دوستم کا اصل نام عبد الرشید ہے اور ان کا تعلق ازبک قبیلے کے ایک غریب گھرانے سے ہے۔ وہ اپنے ابتدائی ایام میں سرکاری اسکولوں میں حصولِ تعلیم کے ساتھ شبرغان اور مزار شریف کے بازاروں میں محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔
بعد ازاں دوستم افغانستان کی سابق سوشلسٹ حکمران جماعت 'پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان' کے دھڑے میں شامل ہوئے اور سابق صدر ببرک کارمل کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 1980 میں افغان مجاہدین کے خلاف علاقائی اور قومی سطح پر بننے والی ملیشیا فورسز کا حصہ بنے۔
وہ اس جوزجانی ملیشیا کا حصہ تھے جو سابق سوویت یونین سے افغانستان آنے والے فوجی قافلوں اور سامان رسد کو احمد شاہ مسعود کے شورایٔ نظار اور دیگر جنگجوؤں کے حملوں اور لوٹ مار سے بچاتی تھی۔
بعد ازاں رشید دوستم اس وقت اس جوزجانی ملیشیا کے سربراہ بن گئے جب سابق سوویت یونین کی افواج جنیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے واپس چلی گئیں اور افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے افغان مجاہدین کے ساتھ معاملات کو راہِ راست پر لانے اور افہام و تفہیم کے لیے قومی مصالحتی پالیسی کا اعلان کیا۔
اس پالیسی کے تحت افغان جنگجوؤں پر حملے کم کرنے اور رابطے بڑھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس پالیسی سے جنگ کے نتیجے میں بننے والے خود ساختہ کمانڈروں اور فوجی جرنیلوں میں دولت کمانے کی ایک جیسی عادتیں پروان چڑھیں اور بیرونی ممالک اور ان کے وفادار جنگجو کمانڈروں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کیں۔
جنگجو کمانڈروں کے اختلافات اور لڑائیاں
افغانستان سے سابق سوویت یونین کی افواج کے انخلا کے بعد سابق جہادی تنظیموں بالخصوص حزبِ اسلامی اور جمعیتِ اسلامی سے منسلک جنگجو دو واضح لسانی گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار اپنے آپ کو پشتونوں جب کہ احمد شاہ مسعود اپنے آپ کو تاجک قوم کا نمائندہ قرار دیتے تھے۔
پشتون افغانستان میں نہ صرف عددی طور پر اکثریت میں تھے بلکہ انہوں نے زیادہ عرصے تک افغانستان پر حکومت بھی کی تھی۔ تاجک افغانستان کی سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔
اس عرصے کے دوران احمد شاہ مسعود نے افغانستان کے غیر پشتون جنگجو کمانڈروں اور رہنماؤں کو جمع کر کے اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے۔
اس منصوبے کے تحت اکتوبر 1991 میں افغانستان کے ساتھ ایران کے سرحدی شہر مشہد میں ایک خفیہ اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں احمد شاہ مسعود، رشید دوستم، منصور نادری، جنرل بابا جان اور جنرل مومن نے شرکت کی تھی۔
اس اجلاس میں نہ صرف اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کو ناکام بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا بلکہ ان رہنماؤں نے افغانستان میں اپنی حکومت بنانے کی حکمتِ عملی بھی مرتب کی تھی جسے بعد میں پاکستان نے پشاور کے اپریل 1992 کے معاہدے کے ذریعے اس وقت ناکام بنایا جب آدھے سے زیادہ کابل انجینئر گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کی اقتدار کی جنگ میں کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا۔
اس جنگ میں احمد شاہ مسعود کو رشید دوستم کے جوزجانی ملیشیا کے نتیجے میں اس حد تک کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ انجینئر حکمت یار کو کابل سے دور ہی رکھا گیا۔ حتیٰ کہ وزیرِ اعظم بننے کے باوجود وہ کابل نہیں جا سکے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور اقتدار کے حصول کے لیے ہونے والی اس بد ترین خانہ جنگی کے نتیجے میں ہی رشید دوستم افغانستان میں ایک ناقابلِ تسخیر شخصیت کے طور پر سامنے آئے تھے۔
اس دوران ایک طرف رشید دوستم نے اپنے آپ کو ازبک قوم کے واحد رہنما کے طور پر منوایا تو دوسری طرف انہوں نے اپنے آپ کو نہ صرف افغانستان بلکہ خطے کے مال دار ترین افراد کے صف میں شامل کرلیا۔ اسی طرح رشید دوستم نے اپنے آپ کو جنگ سے تباہ حال ملک کی سیاست کا اہم مہرہ بھی بنا لیا۔
رشید دوستم: تضادات کا مجموعہ
رشید دوستم نے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو دھوکہ دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کو ناکام بنایا تھا بلکہ اس دوران کابل میں جوزجانی ملیشیا کو لا کر افغان دارالحکومت میں ایک ہفتے کے دوران اتنی تباہی مچائی تھی جو بعض تجزیہ کاروں کے بقول سابق سوویت یونین کی افواج اور مجاہدین کے درمیان 10 سال جاری رہنے والی جنگ میں بھی نہیں ہوئی تھی۔
بعد ازاں اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کے خلاف احمد شاہ مسعود کا حلیف بننے والا رشید دوستم ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان کا حریف بن گیا تھا۔ دوستم کی جماعت 'افغانستان نیشنل اسلامک موومنٹ' اس چار جماعتی اتحاد کا حصہ بن گئی تھی جس نے کابل میں پروفیسر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی حکومت کو گرانے کے لیے مسلح حملے شروع کر دیے تھے۔
اس اتحاد کی دیگر تین جماعتوں میں انجینئر گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی افغانستان، پروفیسر صبغت اللہ مجددی کی افغان نیشنل اسلامک فرنٹ اور پروفیسر عبدالعلی مزاری کی جماعت حزبِ وحدت شامل تھی۔ تاہم اس جنگ کا نتیجہ احمد شاہ مسعود کے حق میں رہا تھا اور رشید دوستم اور ان کے جنگجوؤں کو پسپا ہونا پڑا تھا۔
اس جنگ کے خاتمے پر جب طالبان تحریک نے جنم لیا تو رشید دوستم اور انجینئر حکمت یار اپنے دیگر دو اتحادیوں سمیت پروفیسر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ صلح پر مجبور ہو گئے تھے۔ طالبان کے کابل پر حملے کے بعد رشید دوستم اس طالبان مخالف شمالی اتحاد کا حصہ بنے جس کے سربراہ احمد شاہ مسعود تھے۔
امریکہ میں 9/11 کے واقعے سے عین قبل احمد شاہ مسعود ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ نائن الیون کے ردِ عمل میں امریکہ کے افغانستان پر حملے اور نتیجتاً طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد رشید دوستم کو ایک بار پھر کابل پر چڑھائی کا موقع ملا۔
رشید دوستم نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو افغانستان میں اقتدار کی سیاست کا ایک اہم جز بنا لیا۔
دوستوں کا دوست، دشمنوں کا دشمن
ویسے تو اقتدار کی سیاست میں اصول اور اتحاد وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں مگر رشید دوستم کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے اصول اور دوستیاں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہیں۔
طالبان حکومت کے خاتمے پر وہ کچھ عرصے تک سابق صدر حامد کرزئی کے قریب رہے تھے۔ مگر بعد میں وہ شمالی اتحاد کی سیاست سے مجبور ہو کر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور یونس قانونی کے ساتھی بن گئے تھے۔
حامد کرزئی کے 11 سالہ اقتدار میں رشید دوستم نے بھی کئی کروٹیں لیں اور اُن کے اقتدار کے خاتمے سے قبل جب ڈاکٹر اشرف غنی نے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا تو رشید دوستم ان کے اتحادی بنے اور انتخابات میں نائب صدر اول منتخب ہو گئے۔
مگر 2016 میں ان کے ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ ایسے اختلافات پیدا ہو گئے کہ وہ اپنے آبائی صوبے کے گورنر اور اپنے حریف کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے ترکی چلے گئے جہاں سے وہ 2018 میں واپس لوٹے۔
افغانستان واپس آنے پر وہ عملاً نائب صدر کے عہدے سے دست بردار ہو گئے تھے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے 2019 کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا ساتھ دیا اور انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔
جب امریکہ اور بعض افغان سیاسی رہنماؤں نے ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان صلح کرائی تو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی طرف سے پیش کردہ صلح کی شرائط میں رشید دوستم کو مارشل کا عہدہ دینا بھی شامل تھا جو بالآخر اب دوستم کو مل گیا ہے۔
دوستم پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام
خود ساختہ جنرل رشید دوستم افغانستان کی جنگ و جدل سے بھرپور تاریخ میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے بہت نمایاں ہیں۔
سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران وہ نسبتاً دوسرے درجے کے کمانڈر تھے۔ اسی وجہ سے اس عرصے کے دوران ان کے کردار سے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ مگر 9/11 کے بعد سے انسانی حقوق کی پامالیوں اور لوگوں پر تشدد کے حوالے سے ان کا نام مستقل ذرائع ابلاغ کی زینت بنتا رہا ہے۔
طالبان حکومت کے خاتمے پر رشید دوستم کے جنگجوؤں نے ہزاروں طالبان اور ان کے غیر ملکی ساتھیوں کو گرفتار کر کے جوزجان، مزار شریف اور شمالی افغانستان کے دیگر علاقوں کی جیلوں میں قید کر رکھا تھا۔ ان قیدیوں میں سے بہت سے پانی، خوراک اور ادویات نہ ملنے اور تشدد کے باعث ہلاک ہوگئے تھے۔
رشید دوستم پر اپنے کئی با اعتماد اور وفادار ساتھیوں کو حکم عدولی پر شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ ان افراد میں ان کے آبائی صوبے جوزجان کے گورنر احمد اشحی اور سابق وزیر احمد ذکی قابلِ ذکر ہیں۔ ان دو اعلیٰ عہدیداروں پر ہونے والے تشدد کی بازگشت اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں بھی سنی گئی تھی۔