پاکستان نے واضح کیا ہے کہ موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ کسی بھی طرز کی 'بیک چینل ڈپلومیسی' کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت بات چیت شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے کشمیر کے حوالے سے گزشتہ سال کیے گئے اقدامات واپس لینا ہوں گے۔
جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا بھی کہنا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے پیشِ نظر بھارت کے ساتھ کسی خفیہ رابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بھارت کے اقدام پر سفارتی رابطے محدود کر دیے تھے۔
پاکستان نے بھارت سے اپنا سفیر واپس بلانے کے علاوہ تجارتی روابط بھی محدود کر دیے تھے۔
بھارت نے پانچ اگست کے اقدامات کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اور اس نے یہ اقدام کشمیری عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اُٹھایا ہے۔
بھارت کا پاکستان پر یہ بھی الزام رہا ہے کہ وہ کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتا ہے اور سرحد پار سے دراندازی میں ملوث ہے۔
گزشتہ ایک سال سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے 'بیک ڈور ڈپلومیسی' سے انکار کو ماہرین اہم قرار دے رہے ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے سفیر رہنے والے عبدالباسط کہتے ہیں کہ 'بیک چینل ڈپلومیسی' کے لیے سازگار ماحول درکار ہوتا ہے۔ لیکن بھارت گزشتہ ایک سال سے جو کچھ کر رہا ہے اس ماحول میں خفیہ رابطوں کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
سابق سفارت کار کے مطابق 2004 سے 2007 کے دوران جب دونوں ممالک کے درمیان 'بیک چینل ڈپلو میسی' ہو رہی تھی تو کشمیر کے بجائے اعتماد سازی کی فضا بحال کرنے کے اقدامات کو فوقیت دی جا رہی تھی۔
اُن کے بقول اُس دور میں دونوں ملکوں کے عوام کا میل جول، تجارت اور دیگر اُمور پر پیش رفت ہوئی، لیکن تنازع کشمیر پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
عبدالباسط کے بقول موجودہ حالات میں کوئی تیسرا فریق ہی ان دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مواقع پر تنازع کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ 'شملہ معاہدے' اور 'اعلان لاہور' کے تحت پاکستان اور بھارت دو طرفہ اُمور کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر حل کرنے کے پابند ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی سطح پر کوئی رابطہ ہوتا ہے تو پاکستان کا پہلا مطالبہ یہ ہو گا کہ بھارت پانچ اگست کے اقدامات کو واپس لے۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ اب بھارتی وزیر اعظم کے لیے بھی پانچ اگست کے اقدامات واپس لینا بہت مشکل ہو گا۔ کیوں کہ ایسا کرنا اُن کی سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا۔
عبدالباسط کے مطابق شملہ معاہدہ کے بعد دوطرفہ مذاکرات کے کئی ادوار کے باوجود گزشتہ 50 سالوں میں کشمیر کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
بیک چینل ڈپلومیسی کیا ہے؟
سفارتی ماہرین کے مطابق بیک چینل ڈپلومیسی دو ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کی غیر سرکاری کوشش کو سمجھا جاتا ہے۔
اس میں ممالک کسی عالمی فورم کی سائیڈ لائن یا دیگر ذرائع سے ایک دوسرے کو پیغام پہنچاتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کرکٹ ڈپلومیسی کو بھی اہمیت حاصل رہی ہے جب دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت کسی اہم کرکٹ میچ کے موقع پر مل کر باہمی تعلقات کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔
عبدالباسط کے مطابق پاکستانی قیادت بھارتی وزیر اعظم کی سوچ کو سمجھنے میں ناکام رہی۔
اُنہوں نے بھارت میں انتخابات سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی نریندر مودی کی کامیابی کو تنازع کشمیر کے حل کا ضامن قرار دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نے اس کے برعکس اقدامات اُٹھائے۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ اب وہی عمران خان نریندر مودی کو 'ہٹلر' اور نازی نظریات کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
عبدالباسط کے بقول عمران خان کو ایک ملک کے وزیر اعظم کے خلاف ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں، اس سے معاملات مزید خراب ہوتے ہیں۔
عالمی امور کے ماہر، پروفیسیر ڈاکٹر رفعت حسین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بیک ڈور ڈپلومیسی کی بہت طویل تاریخ ہے۔
اُن کے بقول سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی بیک چینل ڈپلومیسی کی گئی۔
لیکن اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال میں بیک چینل ڈپلومیسی کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ بھارتی حکومت کے گزشتہ سال کے اقدامات کی وجہ سے صورتِ حال بہت کشیدہ ہے۔
رفعت حسین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 2004 سے جامع مذاکرات کا عمل منقطع ہے۔
اُن کے بقول اس دور میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے علاوہ، سرکریک، سیاچن اور تجارت سمیت دیگر معاملات پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی پالیسی ٹھیک سمت میں جا رہی ہے اور بھارت کو اسی لب و لہجے میں جواب دینا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ (ر) جنرل آصف یاسین ملک کا کہنا تھا کہ موجودہ پالیسی بہت پہلے اپنانی چاہیے تھی۔
اُن کے بقول بھارت نہ تو سارک فورم اور نہ کسی دوسرے فورم پر پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔ لہذٰا اس تناظر میں پاکستان کو بھی ایسی ہی پالیسی اپنانی چاہیے۔
آصف یاسن ملک کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے بہت پہلے بتایا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھاتا ہے تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا لیکن اس کے باوجود بھارتی رویہ ہمیشہ جارحانہ ہوتا ہے۔
تاہم سابق سیکریٹری دفاع کے مطابق کشمیر ایک حساس مسئلہ ہے اور اس کا صرف سیاسی حل ہی نکلنا چاہیے۔
پاکستان کی حالیہ کشمیر پالیسی کو سراہتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس مسئلے کو عالمی سطح پر اُجاگر کرتے رہنا چاہیے۔ نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ یورپی یونین کے ملکوں کو بھی اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بداعتمادی کی خلیج بہت وسیع ہو چکی ہے۔ لہذٰا مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔