امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 1872 کے صدارتی انتخابات میں غیر قانونی طور پر ووٹ ڈالنے کے الزام میں سزا پانے والی خاتون رہنما سوزن بی انتھونی کی سزا معاف کر دی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ اعلان منگل کو وائٹ ہاؤس میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے سے متعلق امریکہ کے آئین میں کی جانے والی 19 ویں ترمیم کے 100 سال مکمل ہونے پر کیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُنہوں نے سوزن کی سزا مکمل طور پر معاف کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔
سوزن بی انتھونی 19 ویں صدی میں امریکہ میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم صف اول کی رہنماؤں میں شامل تھیں۔
انہوں نے 1872 کے صدارتی انتخابات میں اجازت نہ ہونے کے باوجود نیویارک میں ووٹ کاسٹ کیا تھا۔
خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر ووٹ ڈالنے کے الزام میں سوزن کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔
جرم ثابت ہونے پر عدالت نے سوزن پر 100 ڈالر جرمانہ بھی عائد کیا تھا جو اُنہوں نے کبھی ادا نہیں کیا۔
منگل کو وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُنہیں نہیں معلوم کہ سوزن کی سزا معاف کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟
صدر نے کہا کہ سوزن ووٹ کے حق کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین کی حمایت میں سرگرم رہیں اور انہوں نے خواتین کے ووٹ کے حق کی تحریک میں شریک کئی عورتوں کی سزائیں معاف بھی کرائیں، لیکن کبھی اپنی سزا معاف کرانے کا نہیں سوچا۔
سوزن نے خواتین کے ووٹ کے حق کی تحریک میں شامل ایک اور خاتون رہنما الزبتھ کیڈی کے ساتھ مل کر امریکی آئین میں تبدیلی کی مہم چلائی تھی۔
بعد ازاں 1920 میں امریکی کانگریس نے 19 ویں ترمیم منظور کی تھی جس میں خواتین سمیت امریکہ کے تمام شہریوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ اس ترمیم کو 'سوزن بی انتھونی ترمیم' بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن سوزن اس سے کئی سال قبل 1906 میں ہی چل بسی تھیں۔