افغانستان میں قیامِ امن اور مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔
مذاکرات کے آغاز کی تقریب سے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو، طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ کے نائب ملا عبد الغنی برادر اور افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ سمیت کئی شخصیات نے خطاب کیا۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات باقاعدہ مذاکرات میں فریق اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کریں گے اور افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن، استحکام اور خوشحالی کے حصول کی راہ میں حائل چیلنجز زیرِ بحث لائیں گے۔
افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبداللہ نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے با وقار اور مستقل امن پر زور دیا۔
عبد اللہ عبد اللہ کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے اگر ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا ہے اور خلوص سے امن کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ تو افغانستان میں جاری مشکلات اور تکالیف کا خاتمہ ہو گا۔
انہوں نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا۔
طالبان کے نمائندے ملا عبد الغنی برادر نے اپنے خطاب میں ملک میں اسلامی نظام رائج کرنے پر زور دیا۔
ملا عبد الغنی برادر کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذاکرات اور معاہدوں میں اسلام کو مدِ نظر رکھا جائے۔ اور اسلام کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دونوں فریق اپنے مستقبل کے سیاسی نظام کا انتخاب خود کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو موقع ملا ہے کہ امن قائم کریں۔
انہوں نے زور دیا کہ آپ میں سے ہر کوئی اپنے دل میں جھانک کر دیکھے گا۔ آپ میں سے ہر ایک پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ پوری دنیا چاہتی ہے کہ آپ کامیاب ہوں۔
مذاکرات کے آغاز پر قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کا کہنا تھا کہ فریقین ہر طرح کی تقسیم سے بلند ہو کر آگے بڑھیں اور ایک ایسے معاہدے تک پہنچیں جس میں کوئی فاتح اور کوئی مفتوح نہ ہو۔
خیال رہے کہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز رواں سال مارچ میں ہونا تھا۔ تاہم فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے مطابق افغانستان میں قید طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ تعطل کا شکار ہوتا رہا جس کے باعث مذاکرات کے آغاز میں تاخیر ہوئی۔
فروری میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے 5000 قیدی رہا کرنے تھے جب کہ طالبان نے اپنی حراست میں موجود افغان حکومت کے 1000 قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ افغان حکومت نے 4600 قیدی تو رہا کر دیے تھے تاہم صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ باقی ماندہ 400 قیدی سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ ان کی رہائی سے کئی خطرات ہو سکتے ہیں۔
بعد ازاں افغان لویہ جرگہ نے ان قیدیوں کی رہائی کی بھی منظوری دی تو افغان صدر نے قیدیوں کی رہائی کا حکم نامہ جاری کیا۔ البتہ بعض ممالک نے 6 ایسے قیدیوں کی رہائی پر اعتراض کیا جو ان ممالک کے فوجیوں کو ہلاک کرنے میں ملوث تھے۔ افغان حکومت نے ان 6 قیدیوں کو جمعے کو قطر منتقل کیا جس کے بعد باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ممکن ہو سکا ہے۔