امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے قبل اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیاں بحال کر دی ہیں۔ ان میں ایران کو اسلحے کی فروخت سے روکنے کی پابندی بھی شامل ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ہفتے کی شام جاری کیے گئے بیان میں ایران کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے اور یہودیوں کی دُشمن ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوبارہ پابندی کا اطلاق ہفتے کی شام سے ہو گیا ہے۔
بیان کے مطابق ان پابندیوں کی بحالی اقوامِ متحدہ کی قرارداد 2231 میں بیان کیے گئے ‘سنیپ بیک عمل’ کے ذریعے ہوئی ہے۔
اس قرارداد کی روح سے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عوض اس پر عائد پابندیوں کو ختم کرنا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں نافذ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ ایران معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی پابندی میں توسیع نہیں کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اُمید کرتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے رُکن ممالک اس ضمن اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔ آنے والے دنوں میں ان پابندیوں پر عمل درآمد اور خلاف ورزی کرنے والوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکہ ایران پر اس وقت تک دباؤ ڈالتا رہے گا جب تک ایران ایٹمی پھیلاؤ کے خطرات کو روکنے اور افراتفری، تشدد اور خون ریزی کو ختم کرنے کا امریکہ کے ساتھ جامع معاہدہ کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔
امریکی اقدامات پر ردعمل دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ اب یہ دنیا پر منحصر ہے کہ وہ امریکہ کے اس نامناسب اور یکطرفہ اقدام پر کیا ردعمل دیتی ہے۔
چند روز قبل واشنگٹن میں برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پومپیو نے عندیہ دیا تھا کہ امریکہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے دوبارہ اقوامِ متحدہ سے رُجوع کرے گا تاکہ ایران پر اسلحے کی فروخت پر پابندی میں توسیع کی جا سکے۔
اس موقع پر برطانوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ایران کو کسی صورت جوہری ہتھیاروں کے حصول کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم اُنہوں نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے واضح بات نہیں کی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ امریکہ کی طرف سے ایران پر اسلحے کی فروخت پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی کی قرارداد پیش کی گئی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2015 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنا جوہری پروگرام محدود، جب کہ امریکہ نے اس پر عائد بعض پابندیاں ہٹا لی تھیں۔ بعد ازاں صدر ٹرمپ کی حکومت یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے الگ ہو گئی تھی کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیاں بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ مؤقف رہا ہے معاہدے کے باوجود ایران اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے، جب کہ پابندیوں کے خاتمے کی مد میں امریکہ ایران کو زیادہ ریلیف دے رہا ہے۔
دوسری طرف ایران نے انکار کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران نے کہا تھا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ کر رہا ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان یہ معاہدہ 2015 میں سابق صدر براک اوباما کے دور میں طے پایا تھا۔
معاہدے پر امریکہ کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور یورپی یونین نے بھی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔