اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر نے منگل کے روز کہا ہے کہ 15 رکنی اس کونسل میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں بحال کرنے پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے اور وہ امریکہ کے اس مطالبے پر کوئی ایکشن نہیں لیں گے جس میں ایران پر پابندیاں دوبارہ لگانے کے لیے کہا گیا ہے۔
سلامتی کونسل کے صدر دیان تریانسیا دجانی نے، جو اس عالمی ادارے کے لیے انڈونیشیا کے سفیر ہیں، کہا ہے کہ مجھے واضح طور پر علم ہے کہ اس مسئلے پر یہ مخصوص موقف کونسل کے صرف ایک رکن کا ہے، جب کہ دیگر زیادہ تر ارکان اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں اس معاملے پر کونسل میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ کونسل کا صدر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس پر مزید ایکشن لے سکے۔
پچھلے ہفتے امریکہ کے وزیر خارجہ مایئک پومپیو نے نیویارک کا دورہ کیا تھا اور اقوام متحدہ کو ذاتی طور پر بتایا تھا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس قرارداد کے تحت، جس کا تعلق 2015 کے جوہری معاہدے کو بین الاقوامی قانون کا تحفظ دینے سے ہے، ایک طریقہ کار کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، اور ایران پر 2006 کی پابندیوں کا دوبارہ نفاذ چاہتا ہے۔
لیکن اس معاہدے میں شامل دیگر ممالک نے اس پر اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ امریکہ مئی 2018 میں اس مشترکہ جامع منصوبے، جے سی پی او اے، سے نکل گیا تھا، اس لیے وہ ایران کے خلاف یہ عمل شروع کرنے کا حق کھو بیٹھا ہے۔ لیکن امریکہ نے ان کی وضاحت مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں سلامتی کونسل میں ایک قرار داد لائے گا۔
14 اگست کو امریکہ نے کہ کوشش کی کہ سلامتی کونسل جے سی پی او اے کی شرائط کے تحت ایران پر ہتھیاروں کی پابندی کی قرارداد کی تجدید کرے، جس کی مدت 18 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔لیکن یہ کوشش ناکام ہو گئی کیونکہ سلامتی کونسل کے صرف ایک اور رکن ڈومینکن ری پبلک نے ووٹنگ میں واشنگٹن کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ہتھیاروں اور دیگر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کی سنیب بیک کے تحت ایک اور کوشش کی۔
تازہ صورت حال پر امریکی سفیر کیلی کرافٹ کا کہنا ہے کہ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ کونسل کے دوسرے ارکان اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے تحت، جس میں برطانیہ، چین، فرانس، روس، امریکہ اور جرمنی شامل ہیں، اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ تہران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لیے اس کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیاں بتدریج اٹھا لی جائیں گی۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سنیپ بیک کا نفاذ کیا جاتا ہے تو اس سے جوہری معاہدہ ختم ہو جائے گا، جو امریکہ کے نکل جانے کے بعد مشکل میں ہے اور ایران نے پابندی کے دائرے میں آنے والی کچھ جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔
روس کے سفیر ویسلی نیبن زیا نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ سلامتی کونسل کے صدر فیصلے سے یہ معاملہ ختم ہو جائے گا اور امریکہ اس سلسلے میں مزید اقدامات سے گریز کرے گا۔
جوہری معاہدے کے دیگر ارکان نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر معاہدے پر مکمل عمل درآمد بحال کرے۔