امریکہ اور ایران کے درمیان 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک نے ایک اجلاس میں معاہدہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
منگل کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے اجلاس کی صدارت یورپی یونین کے سفارتی امور کے محکمے 'یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس' کی سیکرٹری جنرل ہیلگا شمڈ نے کی۔
ہیلگا شمڈ نے بعد ازاں ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تمام فریقوں نے معاہدے کو درپیش چیلنجز کے باوجود اسے برقرار رکھنے کے لیے کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ دنیا میں جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے بھی اپنی قرارداد نمبر 2231 کے ذریعے اس معاہدے کی توثیق کی تھی۔
معاہدے کے ضامن ممالک اور یورپی یونین کی جانب سے اس اجلاس کے انعقاد کو معاہدہ بچانے کی ایک اور بڑی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 2015 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنا جوہری پروگرام محدود، جب کہ امریکہ نے اس پر عائد بعض پابندیاں ہٹا لی تھیں۔ بعد ازاں صدر ٹرمپ کی حکومت یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے الگ ہو گئی تھی کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیاں بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔
معاہدے کے ضامن ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد، چین کے نمائندے فو کنگ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ایران پر زور دیا کہ وہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے اقدامات کرے۔ تاہم ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے بدلے میں ایران کو بھی معاشی فوائد ملنے چاہئیں۔
سیکیورٹی کونسل کی قرارداد میں معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اختلافات کو دُور کرنے کا ایک طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔
امریکہ نے چند روز قبل ایران پر غیر روایتی اسلحے کی خرید و فروخت میں پابندی کی توسیع کی قرارداد پیش کی تھی، جس کی دیگر ممالک نے حمایت نہیں کی۔
ہیلگا شمڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چونکہ امریکہ یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے دست بردار ہو چکا ہے، لہذٰا وہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد پیش نہیں کر سکتا۔
لیکن امریکہ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اس معاہدے کا اصل فریق تھا، لہذٰا وہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کرانے کا حق رکھتا ہے۔
مذکورہ معاہدہ گزشتہ سال ایران کی جانب سے معاہدے کی بعض شقوں کی خلاف ورزی اور یورینیم افزودہ کرنے کی شرح بڑھانے کے اعلان کے بعد خطرے میں پڑ گیا تھا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں اس معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس سے دست بردار ہو گئے تھے۔ تاہم معاہدے کے ضامن ممالک نے تمام فریقوں پر زور دیا تھا کہ وہ معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔
صدر ٹرمپ کا یہ مؤقف رہا ہے معاہدے کے باوجود ایران اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے، جب کہ پابندیوں کے خاتمے کی مد میں امریکہ ایران کو زیادہ ریلیف دے رہا ہے۔
ایران اس سے انکار کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران نے کہا تھا کہ وہ یورینیئم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ کر رہا ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان یہ معاہدہ 2015 میں سابق صدر براک اوباما کے دور میں طے پایا تھا۔
معاہدے پر امریکہ کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور یورپی یونین نے بھی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔