پاکستان میں سابق وزیراعظم نوازشریف سمیت 40 افراد پر غداری اور بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمہ درج ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے نوازشریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب اس مقدمے کا مدعی بدر رشید تحریک انصاف کے یوتھ ونگ راوی ٹاؤن لاہور کا صدر بتایا جاتا ہے، جس کی گورنر پنجاب سمیت پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے اس صورت حال کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
پیر کے روز مقدمے کے اندراج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی، تاہم بعد میں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان، نوازشریف کے خلاف اشتعال انگیز تقریر پر بغاوت کا مقدمہ درج ہونے سے لاعلم تھے اور جب میں نے انہیں یہ بتایا تو انہوں نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
فواد چوہدری نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ بغاوت کے مقدمے بنانا ہماری پالیسی نہیں ہے۔ یہ نواز شریف کے دور کی باتیں ہیں۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاست کی شطرنج پر ابھی ہماری چال باقی ہے۔ (ن) لیگ اپنے پیادے بچائے۔ شاہ اور وزیر کا کھیل ابھی دور ہے۔ ابھی کھیل شروع ہوا ہے جلدی کیا ہے۔
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے اس بیان کے بعد منگل کی شام وزیراطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ جس نے بھی کیا ہے، پتا چل جائے گا، لیکن اسے ہمارے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کے خلاف ایف آئی آر ان کے اپنے لوگوں نے درج کرائی ہو، لیکن ایسی کسی ایف آئی آر سے حکومت یا وزیر اعظم کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور ہم نے کوئی غداری کے سرٹیفکیٹ نہیں دیے۔
شبلی فراز نے کہا کہ ملک میں کتنی ہی ایف آئی آرز ہوتی ہیں۔ کیا وہ سب وزیر اعظم سے پوچھ کر ہوتی ہیں؟ پنجاب حکومت معلوم کرے کہ مقدمہ درج کس نے کروایا ہے۔ تاہم دشمن کی زبان بولیں گے تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ کون محب وطن ہے۔ جب کہ انصاف عہدوں کو دیکھ کر نہیں ہوتا اور کوئی کتنی بار بھی وزیر اعظم بنا ہو، جرم کرے گا تو سزا ہو گی۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہمیں اپوزیشن سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم اپنے کام کر رہے ہیں۔ ہم اداروں کو آگے لے جا رہے ہیں اور ملک کی خوشحالی کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
اس معاملے میں اگرچہ حکومتی وزیر اپنا اور حکومت کا دفاع کرتے ہوئے خود کو اس معاملے سے دور کر رہے ہیں، تاہم وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل کا کہنا ہے کہ غداری اور اسلام کے سرٹیفکیٹ نواز شریف نے ہی بانٹنے شروع کیے تھے۔ شبہاز گل کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو ریاست کے لیے خطرہ اور عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا۔
مقدمے کا مدعی
اس مقدمے کا مدعی بدر رشید نامی شخص ہے، جس کا نام پہلی مرتبہ اس مقدمہ کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ بدر رشید کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ پی ٹی آئی یوتھ ونگ راوی روڈ کا سابق صدر ہے۔ اس شخص کی مختلف تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں سے ایک میں وہ گورنر پنجاب سرور خان سے سرٹیفکیٹ وصول کر رہے ہیں۔ جب کہ شیخ رشید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ بھی اس کی تصاویر موجود ہیں۔
سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق بدر رشید پر اقدام قتل، ناجائز اسلحہ اور کار سرکار میں مداخلت کے مقدمات درج ہیں، جن میں اقدام قتل کے مقدمات تھانہ شاہدرہ جب کہ ناجائز اسلحہ کا مقدمہ تھانہ شرقپور میں درج ہے۔ ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور پولیس سے دست درازی کا مقدمہ تھانہ پرانی انارکلی میں درج ہے۔
اس بارے میں موقف کے لیے بدررشید کے ایف آئی آر پر درج نمبر پر رابطہ کی کوشش کی گئی، تاہم ان کا نمبرمسلسل بند مل رہا ہے۔
بدر رشید کی گورنر پنجاب کے ساتھ تصاویر سامنے آنے کے بعد ترجمان گورنر ہاؤس نے (ن) لیگ کے قائدین کے خلاف مقدمہ کے مدعی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدر رشید کا گورنر پنجاب سے کوئی تعلق نہیں۔
ترجمان کا بیان میں کہنا تھا کہ پنجاب بھر سے ہزاروں افراد گورنر چوہدری سرور سے ملاقات کرتے ہیں اور تصاویر بنانا معمول کی بات ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ گورنر چوہدری سرور سیاست میں وضع داری کے قائل ہیں۔ مخالفین کے خلاف کسی مقدمہ یا اس کی حوصلہ افزائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سینئر صحافی حامد میر نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر بدر رشید کی چار تصاویر کے ساتھ ٹوئٹ کیا کہ” یہ ہے قوم کا وہ ہیرا جس کی درخواست پر لاہور پولیس نے دو سابق وزرائے اعظم پاکستان سمیت آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور فوج کے تین ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا۔ یہ عظیم محب وطن پاکستانی مقدمہ درج کرانے کے بعد غائب ہے۔ فون بھی بند ہے۔ گھر والے کہتے ہیں وہ یہاں سے چلے گئے”
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟؟
تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی ناپختگی نظر آ رہی ہے۔ ایک معاملے پر تمام حکومتی وزرا اور حکومتی شخصیات زور شور سے اس مقدمے کی حمایت کر کے تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم کو غدار قرار دیتے رہے، لیکن شام گئے جب یہ معاملہ بیک فائر کر گیا اور وزیراعظم کی ناپسندیدگی کا علم ہوا تو سب اس مقدمے سے خود کو دور کرنے لگے۔ یہ صرف اور صرف پی ٹی آئی کی سیاسی ناپختگی ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ نواز شریف تین مرتبہ کے وزیراعظم ہیں۔ اگر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ ایک ملک کا غدار تین مرتبہ اس ملک کا وزیراعظم رہا۔ اس سیاسی صورت حال میں بہت کچھ غلط ہو ،رہا ہے جو کسی طور پر ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو غدار کہنے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سے ملک کا نقصان ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو نہیں معلوم کہ ایف آئی آر کٹوانے والا کون ہے تو پھر حکومت کا بیانیہ اس ایف آئی آر سے ملنا نہیں چاہیے تھا۔ لیکن شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک پی ٹی آئی کا بیانیہ یہی تھا جو رات گئے تبدیل ہوا۔
اپوزیشن کا ردعمل
پاکستان مسلم لیگ(ن) کا اس بارے میں کہنا ہے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت نے سیاسی رواداری ختم کر دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف پہلے کرپشن کا بیانیہ لایا گیا۔ اب غداری پر اتر آئے ہیں۔ نواز شریف کو اللہ نے عزت دی۔ حکومت صرف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ نواز شریف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ تین بار کے وزیر اعظم کو غدار قرار دینا افسوس ناک ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف پر درج ہونے والے مقدمے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات وزیراعظم کی ایما پر درج کئے گئے۔ وزیراعظم نے اپوزیشن رہنماؤں پر بھارت کو خوش کرنے جیسے بے بنیاد الزام عائد کر کے نفرت پیدا کرنے اور لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی۔ وزرا کا اس کیس پر وزیراعظم کی ناپنسدیدگی جیسا بیان ایک مذاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا آئین، قانون اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کرنا غداری ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بانی پاکستان سے لے کر ملک کو ایٹمی طاقت دینے والے عظیم رہنماؤں کو بھی غدار قرار دیا گیا۔