امریکی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتے۔
امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو 'این پی آر' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ افغانستان سے باقی ماندہ تقریباً 4500 فوجیوں کی واپسی کا انحصار طالبان حملوں میں کمی اور کابل حکومت سے امن مذاکرات میں پیش رفت پر ہو گا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کرسمس سے قبل افغانستان سے تمام فوجیوں کو واپس بلا لینا چاہیے۔
طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی فورسز کا اںخلا مئی 2021 تک مکمل ہو جائے گا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فورسز کا مکمل انخلا مشکل ہے۔ ان کی کچھ موجودگی برقرار رہے گی جب کہ امریکی فورسز کے اڈے بھی موجود رہنے کا امکان ہے۔
جنرل ملی کے بقول اہم بات یہ ہے کہ ہم ارادی طور پر اور ذمہ داری کے ساتھ افغان جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا ان شرائط کے تحت کیا جائے گا کہ امریکہ کے قومی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔
جنرل ملی نے کہا کہ معاہدے کے تحت پہلے افغانستان میں امریکی فورسز کو 12 ہزار کی سطح سے کم کر دیا گیا ہے جس میں طالبان اور کابل کے درمیان بات چیت کو ضروری قرار دیتے ہوئے تشدد میں نمایاں کمی کا کہا گیا تھا۔ جنرل ملی کے بقول اس بات پر اتفاق تھا اور مشروط انخلا سے متعلق فیصلہ صدر کا تھا۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں واشنگٹن سے مختلف بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن کہہ چکے ہیں کہ امریکہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے ڈھائی ہزار کر دے گا۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ غیر ملکی فورسز کا انخلا، بین الافغان مذاکرات اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی سے مشروط ہے۔
اُن کے بقول بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن طالبان کے حملے بھی جاری ہیں۔ مستقبل میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا انحصار ان ہی دو معاملات پر ہو گا کہ ان پر پیش رفت کس طرح ہوتی ہے۔
نجم رفیق کے بقول صدر ٹرمپ کے بیان کو نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی انتخابی مہم کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
نجم رفیق نے کہا کہ صدر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کرسمس تک امریکی فورسز کو واپس آ جانا چاہیے، لیکن انہوں نے کوئی حتمی پالیسی بیان نہیں دیا۔
نجم رفیق کے بقول امریکہ افغانستان سے مکمل انخلا شاید نہ کرے۔ ان کی کچھ نہ کچھ موجودگی برقرار رہے گی جب کہ امریکی فورسز کے اڈے بھی موجود رہنے کا امکان ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان امریکہ معاہدے کے باوجود بھی افغانستان میں امریکی فورسز موجود رہیں گی۔ ان کی خطے میں جیو پولیٹکل اور جیو اسٹرٹیجک گیم جاری ہے۔ چین اس خطے میں موجود ہے، ایران اور روس کے حوالے سے بھی امریکہ کو تحفظات ہیں۔
اس لیے تجزیہ کار نجم رفیق کے خیال میں، وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کا مکمل انخلا کرے گا۔
دوسری طرف افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں امریکہ کے صدر اور کئی اعلی ٰعہدیداروں کے افغانستان سے انخلا سے متعلق مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کے چیفس آف اسٹاف افغانستان سے امریکی فورسز کے مشروط انخلا کا اعادہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ امریکی حکام طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں تاکہ افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا ممکن ہو سکے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اگر طالبان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کی شرائط پوری کریں گے تو افغانستان سے امریکی فوج واپس جائے گی۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ بھی کہہ چکے کہ نیٹو اور امریکی اتحادی فورسز ایک ساتھ ہی افغانستان آئے تھے اور ان کی واپسی بھی ایک ساتھ ہو گی۔