پاکستان میں سیکیورٹی فورسز پر حالیہ دنوں میں حملوں میں ایک مرتبہ پھر تیزی آئی ہے اور تجزیہ کاروں کی نظر میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں مختلف عوامل شامل ہیں جن میں افغانستان میں کئی عسکریت پسند گروپوں کا الحاق، بیرونی ہاتھ، طالبان امن معاہدہ اور خطے کے حالات شامل ہیں۔
گزشتہ روز قبائی علاقے شمالی وزیرستان اور صوبہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ایک کیپٹن سمیت 20 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اور ستمبر کے مہینے سے سے اب تک ڈیڑھ ماہ کے دوران بلوچستان میں پانچ اور وزیرستان میں ایسے سات واقعات پیش آ چکے ہیں۔
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑا کے قریب کوسٹل ہائی وے پر دہشتگردوں نے گوادر سے کراچی جاتے او جی ڈی سی ایل کے قافلے پر حملہ کر دیا۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق دہشت گردوں سے جھڑپ میں ایف سی کے 7 اہلکار اور 7 سیکیورٹی گارڈ ہلاک ہو گئے جب کہ شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک کے قریب سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک افسر اور 5 فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ دہشت گردوں نے فورسز کے قافلے کو سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی برسوں سے عسکریت پسند چھوٹے پیمانے پر ملکی سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں دیگر قوم پرست، بعض فرقہ ورانہ اور مذہبی دہشت گرد تنظیمیں بھی پرتشدد کارروائیاں میں ملوث رہی ہیں۔
سرحدی علاقوں میں حملوں سے پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے، تجزیہ کار
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ افغان امن مذاکرات جاری ہیں لیکن کئی گروپس کا آپس میں الحاق ہوا ہے اور وہ اپنی کارروائیاں پاکستانی علاقوں میں بڑھا رہے ہیں۔ کئی دہشت گرد گروپوں نے سرحد پار پناہ لی ہوئی ہے اور وہ وہاں سے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں اور کچھ بیرونی ہاتھ بھی اس کو ہوا دے رہے ہیں۔ الگ الگ قوتیں وزیرستان اور بلوچستان میں آپریٹ کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں پاکستانی فورسز پر حملوں کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک تو ہے کہ چین امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہیں، افغانستان کی صورتحال خراب ہے۔ ایران کا بارڈر بہت اوپن رہتا ہے۔ تنازعات ہیں، کئی وجوہات ہیں۔ جن کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان دوبارہ متحرک ہو رہی ہے۔
جنرل طلعت مسعود کے بقول ’’ بھارت پاکستان پر دباؤ رکھنا چاہتا ہے، اس کے علاوہ بعض فورسز ایسی ہیں جو پاکستان کو ہدف بنانا چاہتی ہیں۔ سی پیک اور پاک چین دوستی پر بھی دنیا کے بہت سے ممالک خوش نہیں ہیں اور اس کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں‘‘
تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز میں ایک ہی دن حملوں کی بہت سی وجوہات ہیں۔ بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندوں کی تحریک پہلے ہی جاری تھی اور پہلے بھی حملے ہو رہے تھے لیکن اب اس میں چین کی وہاں موجودگی بھی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے۔ ماضی میں چین کی مختلف تنصیبات اور قونصلیٹ تک پر حملہ کیا گیا
دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ خارج از امکان نہیں،تجزیہ کار
ماہرین پاکستان میں ہونے والے بعض حملوں کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیتے ہیں، لیکن بھارت کی طرف سے ایسے الزامات کی بارہا تردید کی جا چکی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان ماضی میں بلوچستان میں ہونے والی بعض کارروائیوں میں بھارت کو موردالزام ٹھراتے ہیں اور اس کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کلبھوشن یادیو کی مثال دی جاتی ہے۔
زاہد حسین کے مطابق ’’ ایک وہاں بلوچ علیحدگی پسندوں کی تحریک چل رہی ہے، لیکن اب وہاں ہونے والے حملوں کو چین کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اب وہاں چینی شہریوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ بھارت اپنا پریشر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایسی فورسز بھی ہیں جیسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپیس، جن کا مقصد پاکستان اور سی پیک کو ٹارگٹ کرنا ہے۔
شمالی وزیرستان میں حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان جب کہ بلوچستان حملے کی ذمہ داری بلوچ راجی آجوئی سنگر بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان ریپبلکن گارڈز پر مشتمل مسلح اتحاد براس نے قبول کی ہے۔
ستمبر سے ابتک ہونے والے حملے اور کارروائیاں
ستمبر سے اب تک بلوچستان میں پانچ اور وزیرستان میں ایسے سات واقعات پیش آچکے ہیں۔ گزشتہ ماہ کی 28 تاریخ کو جنوبی وزیرستان میں شکئی میں دہشتگردوں نے پٹرولنگ کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کپیٹن عبداللہ ظفر ہلاک ہو گئے تھے۔
اسی طرح 22 ستمبر کو سرحد پار افغانستان سے فائرنگ کے نتیجے میں سپاہی صابر شاہ ہلاک ہو گئے تھے۔ 20 ستمبر کو میران شاہ وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا اور دہشتگردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں دو سپاہی ہلاک ہو گئے تھے۔ 12 ستمبر کو میران شاہ میں ہی بارودی سرنگ کے دھماکے میں سپاہی ساجد ہلاک ہوگیا تھا۔ 13ی ستمبر کو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے میں سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا اور کئی کارروائیوں میں ملوث دہشتگرد کمانڈر احسان اللہ سمیت تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ 19 ستمبر کو سیکیورٹی فورسز نے آواران بلوچستان میں آپریشن کر کے چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ 29 ستمبر کو بلوچستان میں کیچ کے علاقے میں کارروائی کرکے دو دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔
اس سے قبل 8 مئی کو صوبہ بلوچستان میں ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک بڑے حملے میں پاکستانی فوج کے ایک میجر سمیت چھ اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسی طرح 19 مئی کو صوبے کے دو مختلف علاقوں، کچھی اور کیچ، میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں کم از کم سات فوجی اہلکار مارے گئے۔
پاکستان کے لیے تین محاذ
پاکستان کے لیے اس وقت افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں اور ان علاقوں میں پاکستانی حکام کو آبادی کو محفوظ بنانے کے ساتھ بارودی سرنگوں کا بھی سامنا ہے۔ ایک ماہ کے دوران تین مختلف واقعات میں بارودی سرنگوں کا استعمال کیا گیا اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی فوجی اہلکاروں پر پاکستان فوج کے مطابق افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے بھی حملہ کیا۔
پاکستان کا دوسرا محاذ لائن آف کنٹرول ہے جہاں بھارت کے ساتھ گولہ باری کے تبادلہ میں ایک ماہ کے دوران چار اہلکار ہلاک ہو چکے، مختلف سیکٹرز میں ہونے والی اس گولہ باری کے تبادلہ پر دونوں ممالک ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
پاکستان کے لیے تیسرا محاذ پاکستان ایران سرحدی علاقے ہیں جہاں سیکیورٹی فورسز پر باقاعدہ حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں سیکیورٹی اہلکار اگرچہ قافلے کی صورت میں سفر کرتے ہیں لیکن عسکریت پسند اور علیحدگی پسند بعض تنظیمیں ان علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہی ہیں۔ پہاڑوں پر علیحدگی پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سیکیورٹی کے شدید مسائل ہیں اور پاکستان ایران سرحدی علاقوں میں فرقہ ورانہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ لسانیت کی بنیاد پر بھی کئی افراد کو اغوا اور قتل کیا جا چکا ہے۔