انسانی صحت پر کام کرنے والے اداروں اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ماہرین کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی اور اس کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں جو نومولود بچوں کی شرح اموات میں تیزی سے اضافے اور بزرگ شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہے۔
حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی میں اضافے کے باعث پھیپھڑوں کے امراض، سانس لینے کے عمل میں انفیکشن، کینسر، ذیابیطس، دل کے مختلف امراض اور نوزائیدہ بچوں کی اموات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اندازے کے مطابق سال 2019 میں 66 لاکھ سے زائد افراد فضا میں پائی جانے والی آلودگی کے باعث ہلاک ہوئے جو کل اموات کا 12 فی صد بنتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس سائنس دانوں نے فضائی آلودگی کو دنیا میں جلد اموات کا پانچواں بڑا سبب قرار دیا تھا جو اب وقت سے پہلے اموات کی چار بڑی وجوہات میں شامل ہو گیا ہے۔
اس فہرست میں فضائی آلودگی سے بھی زیادہ قبل از وقت اموات کی وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، تمباکو نوشی اور بہتر غذا نہ ہونا شامل ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ وہ خواتین جو فضائی آلودگی کا دائمی شکار ہوتی ہیں ان کے ہاں اکثر کم وزن یا وقت سے پہلے بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ ایسے بچے صحت کے مختلف معاملات پر زیادہ رسک پر ہوتے ہیں جس کا عکس اس حقیقت میں بھی نظر آتا ہے کہ اکثر ایسے بچے پیدائش کے پہلے مہینے ہی میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
'ترقی پذیر ممالک فضا کے خراب معیار سے سب سے زیادہ متاثر ہیں'
اسٹیٹ آف گلوبل ایئر 2020 رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک میں صاف ہوا کا معیار سب سے کم ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔
اُن ممالک میں جہاں کھانے پکانے اور دیگر گھریلو کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر ایندھن کے ٹھوس ذرائع (سالڈ فیول) استعمال کیے جاتے ہیں وہاں آلودگی کی شرح زیادہ پائی گئی۔ ایسے ممالک میں سے بیشتر ایشیا اور افریقہ میں ہیں۔
وسطی جمہوریہ افریقہ، جنوبی سوڈان، برونڈی، مالی، یوگنڈا، تنزانیہ، مڈغاسکر اور روانڈا جیسے ممالک میں آبادی کے 97 فی صد شہری کھانا پکانے کے لیے ایسے ٹھوس ایندھن کے ذرائع استعمال کرتے ہیں جو ان ممالک میں فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔
اگرچہ بعض ممالک جیسے بھارت اور چین میں گھریلو استعمال کی ان اشیا سے فضائی آلودگی میں کمی تو واقع ہوئی ہے اور ان ممالک میں گزشتہ ایک دہائی میں اس کے استعمال میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ مگر اب بھی دنیا کی آدھی آبادی یہ ذرائع استعمال کر رہی ہے جس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اوزون کی تہہ کو خطرات
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرۂ ارض پر موجود اوزون کی تہہ میں شگاف کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں میں کئی گنا تیزی دیکھی گئی ہے۔ جس کے اثرات انسانی صحت، غذائی فصلوں اور سبزیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
مختلف انسانی سرگرمیوں مثلاً گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں، پاور پلانٹس سے گیسوں کے اخراج، صنعتی بوائلرز اور دیگر ذرائع سے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور دوسرے نامیاتی مرکبات نکلتے ہیں جس سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور گزشتہ 100 سالوں کے دوران اس میں پڑنے والے شگاف میں مختلف مقامات پر 30 سے 70 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ گزشتہ سال اوزون کی تہہ میں شگاف سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں سے تمام کا تعلق ایشیا سے ہے۔ جن میں مشرقِ وسطٰی کے بعض ممالک کے علاوہ بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، ایران اور کوریا بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2010 کے مقابلے میں 2019 میں اوزون تہہ کے شگاف سے متاثر ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورتِ حال ایتھوپیا، نائیجیریا، کانگو، برازیل میں بھی رہی جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اوزون کی تہہ میں شگاف سے متاثر ہوا ہے۔
فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کی کیا تیاری ہے؟
رپورٹ میں بعض ممالک کی جانب سے اس ضمن میں کیے گئے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک بھارت نے 2019 میں صاف ہوا کا قومی پروگرام شروع کیا تھا۔ لیکن اس کا قانونی مینڈیٹ نہ ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس پر کافی تنقید کی جاتی رہی ہے۔
اپریل 2020 میں بھارت کی جانب سے گاڑیوں کے دھوئیں سے اخراج سے متعلق نئے معیار متعارف کرائے گئے جس کے فوائد آئندہ چند سالوں میں نظر آنے کے امکانات ہیں لیکن کرونا وبا کی وجہ سے اس منصوبے پر بھی عمل درآمد میں تاخیر نظر آرہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے منظم قومی ایکشن پلان کی کمی نظر آتی ہے حالاں کہ پاکستان میں ایئر کوالٹی سے متعلق قوانین میں اسے بڑے بہتر انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
تاہم پاکستان کی سپریم کورٹ کے حکم پر اینٹوں کے بھٹوں، زرعی فضلہ جلانے اور صنعتوں سے خارج ہونے والی فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بعض اقدامات کو مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔
لیکن دوسری جانب گاڑیوں کے دھوئیں کے اخراج کے لیے اب تک پرانی ٹیکنالوجی پر انحصار اور چھوٹی، غیر رسمی صنعتوں سے آلودگی کے اخراج کو اب تک ریگولیٹ نہیں کیا گیا۔
بنگلہ دیش کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 میں کلین ایئر بل منظور کیے جانے کے بعد صاف ہوا اور پائیدار ماحولیاتی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں جن میں اینٹوں کے بھٹوں اور ٹرانسپورٹ سیکٹر میں آلودگی میں کمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اہم ہیں۔
کرونا وبا سے ہوا کے معیار پر مثبت لیکن عارضی اثرات
کرونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر اور مقامی سطح پر بھی آمدورفت، تعلیمی اداروں کی بندش اور کاروبار کے ساتھ بڑی صنعتی سرگرمیوں میں ڈرامائی کمی دیکھی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وبا میں ان عوامل کی وجہ سے کئی ممالک میں ہوا کے معیار میں قدرے بہتری دیکھنے میں آئی۔ کئی ممالک میں ایک عرصے کے بعد صاف نیلا آسمان اور ستاروں بھری راتیں دیکھنے کا موقع ملا۔
سیٹیلائٹ اور زمینی مانیٹرنگ ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آلودگی پھیلانے کا باعث بننے والی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ سمیت آلودگی پھیلانے والے گیسز کے اخراج میں خاطر خواہ کمی کے نتیجے میں موسمیاتی عوامل بشمول درجۂ حرارت میں بھی کمی اور نتیجتاً اوزون کا شگاف پُر ہونے میں کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں عارضی ثابت ہوں گی، کرونا کی وبا کے باعث لگنے والی پابندیاں ہٹنے کے بعد آلودگی دوبارہ بڑھنے سے اس بارے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں تیزی سے کم ہو جائیں گی۔
اس طرح کرونا کی وبا فضائی آلودگی کے خلاف ایک عارضی مہلت ہی ثابت ہو گی۔ لیکن صاف ہوا کے باعث نیلگوں آسمان کے نظارے ایک بار پھر اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ آلودگی نے ہم سے کیا کچھ چھین لیا ہے۔
رپورٹ پر ماہرین ماحولیات کیا کہتے ہیں؟
ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں خواتین پر آلودگی کے اثرات کی بڑی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی کی بڑی وجہ ان خواتین کا دھوپ سے سامنا کم ہونا ہے۔
خاص طور پر جب شہری علاقوں میں کھلے مقامات کی کمی ہو گئی ہے، ہر چیز کو کنکریٹ میں چھپا دیا گیا ہے، گھروں میں برآمدے، صحن اور دالان کا تصور تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح کھلے عوامی مقامات، پارکس اور گراؤنڈ ختم ہونے سے یہ بیماریاں مزید بڑھنے لگی ہیں۔
اُن کے بقول انسان نے سہل پسندی کی عادات اپنا کر اپنے جسم کو مشقت کے کاموں سے دور کر لیا ہے، گرمی سے بچنے کے لیے اسپلٹ/ایئرکنڈیشنز کا استعمال بڑھ گیا، جس سے ایک جانب کلوروفلورو گیسز کا اخراج بڑھا تو دوسری جانب اس میں زیادہ وقت گزارنے سے ہڈیوں اور سانس کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رفیع الحق کے مطابق فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے شجر کاری کی اشد ضرورت ہے۔
اُن کے بقول قدرتی نظام کے سامنے دیوار بننے کے رویوں کے بجائے اسے اپنانا ہوگا، قدرت کے قریب آنا پڑے گا اور اس کے لیے آج سے کوشش کرنا ہو گی تو اس کے نتائج کل کی نسلوں کو ملیں گے۔
دوسری جانب جامعہ کراچی کے شعبۂ ماحولیات کے چیئرمین ڈاکٹر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں توانائی کے متبادل قابلِ تجدید ذرائع کی جانب جانا ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں صنعتی ترقی میں پائیدار ترقی کی راہ اپنانے کی اشد ضرورت ہے اور اس میں بھی ہمیں گرین ٹیکنالوجی اپنانے کی ضرورت ہے جس سے آلودگی بالکل نہ پھیلے۔
اُن کے بقول پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماحولیات کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ اسے ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے صنعتی ترقی اور ماحولیاتی بقا کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھنا ہے۔
ڈاکٹر معظم علی خان کے خیال میں اب پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک کو یہ طے کرنا ہو گا کہ ترقی کے پیمانے کیا ہوں گے۔ صنعتی ترقی، انفراسٹرکچر، پانی اور توانائی کے حصول کے ایسے منصوبے اس طرح قائم کیے جائیں کہ جس سے ماحولیاتی بقا اور تحفظ کو ممکن بنایا جاسکے۔ اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے تو ہم ترقی پذیر بلکہ پسماندہ ہی رہیں گے۔
اگرچہ پاکستان میں برسرِ اقتدار تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نبردآزما ہونا ان کی ترجیحات میں سے ایک ہے جب کہ اس مقصد کے لیے مختلف منصوبوں کے لیے 80 کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کی جا چکی ہے۔
پاکستان کی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت ملک میں 2030 تک 30 فی صد گاڑیاں بجلی سے چلائے جانے کا پروگرام ہے، اسی طرح ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دنیا کی پہلی ایسی میٹرولائن قائم کرنےکا منصوبہ بنایا گیا ہے جس پر چلنے والی گاڑیوں سے بالکل آلودگی نہیں پھیلے گی۔
پاکستان نے پلاسٹک کے مضر بیگز کے استعمال پر پابندی کے ساتھ پانی کے ذرائع کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے منصوبے بھی بنائے ہیں جب کہ 2030 تک صاف ذرائع سے 60 فی صد توانائی کا حصول ممکن بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کا ملک میں 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے نام پر الگ وزارت قائم کر رکھی جو دنیا میں کہیں نہیں لیکن اس کے باوجود یہ مسائل حل نہ ہونے کی وجہ پالیسی بنانے والے اور فیصلہ سازی کرنے والوں کو اصل مسائل کا ادراک کم اور عملدرآمد کا فقدان ہے۔