پاکستان کی قومی ایئر لائن کی مشکلات بدستور جاری ہیں۔ یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کو یورپ کے لیے پروازوں کی عارضی اور مشروط اجازت دینے سے معذرت کرلی ہے۔
پی آئی اے آفیسرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے سیفٹی ایشوز کی وجہ سے یہ پابندی جاری ہے اور حکام اسے دور کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے۔
دوسری جانب سعودی حکام نے سعودی عرب میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے یک طرفہ پروازیں چلانے کی اجازت دے دی ہے۔
پی آئی اے کے جہازوں پر پابندی کی وجہ سے پی آئی اے نے اپنے بڑے 777 جہاز کارگو کے لیے لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایاسا کی جانب سے پی آئی اے انتظامیہ کو ان کے ارسال کردہ اس خط کا جواب موصول ہو گیا ہے جس میں پی آئی اے نے ایاسا سے پروازوں کی عبوری اجازت مانگی تھی۔
یورپی یونین کی سیفٹی ایجنسی نے خط میں کہا ہے کہ ایاسا کا قانونی دائرہ کار کسی بھی 'تھرڈ کنٹری آپریٹر' کو عارضی یا مشروط اجازت دینے کا امکان فراہم نہیں کرتا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کے ماہرین نے پاکستان کے حفاظتی انتظام کے نظام کو بہتر بنانے کی اصلاحی کارروائی سے متعلق تمام مواد اور اضافی معاون دلائل کا جائزہ لیا ہے۔ خط کے مطابق پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی سرٹیفکیشن اور نگرانی کی کارکردگی میں عدم اعتماد کا پہلو پایا جاتا ہے۔
ایاسا کا کہنا ہے کہ ان ہی وجوہات کی بنا پر یورپی یونین کمیشن کے ذریعے ہونے والی تحقیقات، پی آئی اے کے یورپ میں فضائی آپریشن کو معطل کرنے کا سبب بنیں۔ پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے لیے سی اے اے پاکستان کا سیفٹی آڈٹ ناگزیر یے۔
اس بارے میں پی آئی اے آفیسرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل صفدر انجم نے کہا ہے کہ قومی ایئر لائن میں سیفٹی پر سمجھوتا کیا جا رہا تھا۔
صفدر انجم نے کہا کہ پی آئی اے کے موجودہ سربراہ کے دور میں ایئر لائن کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ سیفٹی آڈٹ اور دیگر اعتراضات کے باعث اب وہ یورپ نہیں جاسکتے جس کی وجہ سے ایئر لائن بحران کا شکار ہے۔ ان کے بقول پی آئی اے انتظامیہ مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
پی آئی اے کو یورپی ممالک بالخصوص لندن کی پروازوں پر پابندی کے باعث رواں سال 30 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے حکام نے ایاسا کو خط لکھا تھا جس میں پروازوں کی عارضی اور مشروط اجازت دینے کا کہا گیا تھا۔ لیکن سیفٹی آڈٹ نہ ہونے اور پائلٹس کی مبینہ جعلی ڈگریوں اور جعلی لائسنس کے معاملے کی وجہ سے پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کہتے ہیں کہ انہوں نے خود کو ہر قسم کے آڈٹ کے لیے پیش کیا ہے۔ عبداللہ حفیظ نے کہا کہ پی آئی اے کی مشکلات کے باعث انہوں نے ایاسا کو ایسا خط لکھا ہے اور وہ اپنے آئندہ سال کے سیفٹی آڈٹ کے لیے بھی تیار ہیں۔ تاہم ریگولیٹر کے معاملات میں سی اے اے کا کردار ہے۔
پی آئی اے کا سیفٹی آڈٹ رواں سال اکتوبر میں ہوا تھا۔ لیکن سی اے اے کی جانب سے جعلی لائسنسوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ایاسا نے سی اے اے کا بھی آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس بارے میں سی اے اے نے اب تک ایاسا کو آگاہ نہیں کیا۔ بطور ریگولیٹر جب تک سی اے اے کو کلیئر نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان کی نگرانی میں چلنے والی ایئرلائنز کو بھی پروازوں کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ رواں سال مئی میں پیش آنے والے کراچی طیارہ حادثے کے بعد وزیرِ ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے پائلٹوں کے مبینہ جعلی لائسنسوں کے انکشاف کے بعد پی آئی اے پر یورپ اور امریکہ میں پرواز کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
دوسری جانب سعودی عرب نے وہاں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے پاکستانی حکام کو یک طرفہ پروازیں چلانے کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد پاکستان سے خالی جہاز سعودی عرب جائے گا اور وہاں سے مسافروں کو واپس لائے گا۔
جہاز کے عملے کو 'کووڈ 19' کی وجہ سے سعودی عرب میں جہاز سے اترنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
پی آئی اے حکام کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یک طرفہ پروازیں چلانا مالی طور پر ایک مشکل فیصلہ ہے۔ لیکن سعودی عرب میں پھنسے پاکستانیوں کی مشکلات کے پیش نظر پی آئی اے یہ پروازیں چلائے گی اور انہیں وطن واپس لایا جائے گا۔
حکام کے مطابق اس سلسلے میں سعودی حکام سے رابطہ کیا جا رہا ہے تاکہ پروازوں کا شیڈول طے کیا جا سکے۔