رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں جیولر کا قتل، ڈومیسائل سرٹیفکیٹ لینے والوں کے لیے پیغام؟


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر سری نگر کے ایک مصروف تجارتی علاقے سرائے بالا میں بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک جوہری ست پال نسچل کے قتل کے بعد علاقے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ست پال نسچل کو نامعلوم افراد نے جمعے کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

بھارتی کشمیر کے سیاست دانوں بشمول سابق وزرائے اعلٰی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی ست پال نسچل کے مبینہ قتل کی مذمت کی ہے۔

اپنے الگ الگ بیانات میں دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گو کہ وہ بھی ڈومیسائل قانون پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم کسی کی جان لینے کے بجائے یہ لڑائی قانونی طور پر لڑنے کی ضرورت ہے۔

پولیس حکام تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے یا ذاتی رنجش کی بنیاد پر ایسا کیا گیا۔

خیال رہے کہ ست پال نسچل نے گزشتہ سال بھارتی کشمیر میں متعارف کرائے گئے متنازع ڈومیسائل قانون سے استفادہ کرتے ہوئے حال ہی میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کیا تھا۔

نئے قانونِ اقامت کے تحت غیر مقامی افراد کو بھی کشمیر کی شہریت کی سند دی جا رہی ہے اور 15 سال سے زائد عرصے سے یہاں مقیم افراد جائیداد بھی خرید سکتے ہیں۔

بھارتی کشمیر کے بعض سیاست دانوں نے بھارتی حکومت کے اس منصوبے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے کشمیریوں کی آبادی کے تناسب کو کم کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

عسکری تنظیم 'دی ریزسٹنس فرنٹ' نے ستر سالہ جوہری کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

بھارتی کشمیر میں انتخابات، ڈھکوسلہ یا بہتر حالات کا ثبوت؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:31 0:00

تنظیم کا کہنا ہے کہ ست پال نسچل جیسے لوگ جنہوں نے نئے قانونِ اقامت کے تحت شہریت کی سندیں حاصل کر لی ہیں دراصل بھارت کی ہندو قدامت پسند تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آرایس ایس﴾کے ایجنٹ ہیں۔

تنظیم نے دھمکی دی ہے کہ اُن کے پاس ایسے تمام افراد کے کوائف موجود ہیں، لہذٰا ان سب کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے قانونِ اقامت پر اُنہیں بھی اعتراضات ہیں۔ لیکن اس کی آڑ میں کسی نہتے شخص کا قتل زیادتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک لیڈر اشوک کول نے کہا کہ ست پال کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ اس واقعے پرکشمیر کی مخصوص شناخت جوٰ کشمیریتٰ کے نام سے موسوم ہے شرمسار ہے۔

کشمیر کو بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت خصوصی حیثیت حاصل تھی جسے 1950 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی اس کی ایک ذیلی شق دفعہ 35-اے بھی ختم ہو گئی تھی۔ دفعہ 35-اے کے تحت بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔

دفعہ 370 اور دفعہ 35-اے کی منسوخی کے بعد نہ صرف ریاست کا اپنا آئین، جھنڈا اور ترانہ ختم ہو گئے ہیں بلکہ اب بھارت کے آئین کے ساتھ ساتھ پارلیمان سے پاس کیے جانے والے قوانین کا ریاست پر مکمل اور براہِ راست اطلاق ہو رہا ہے۔

قوانین میں تبدیلی کے بعد بھارت کا ہر شہری کشمیر میں جائیداد خریدنے کا اہل قرار دیا گیا تھا۔

نیا قانونِ اقامت کیا کہتا ہے؟

نئے قانونِ اقامت کے تحت کشمیر میں سات سے 15 سال تک رہنے والا کوئی بھی شخص ڈومیسائل سرٹیفکیٹ یعنی مستقل اقامت کی سند حاصل کرنے کا حق دار ہے۔​

یہ سند متعلقہ شخص کو جموں و کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک بننے، سرکاری نوکری اور دوسری مراعات حاصل کرنے کا اہل بناتی ہے۔

گزشتہ برس اپریل میں بھارت کی مرکزی حکومت کے جاری اعلامیے کے مطابق کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں 15 سال تک رہا ہو یا جس نے یہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور 10ویں اور 12ویں جماعت کے امتحانات میں یہاں قائم کسی ادارے سے حصہ لیا ہو۔ وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حق دار اور جموں و کشمیر میں سرکاری نوکری کے لیے درخواست دینے کا اہل ہو گا۔

اعلامیے کے مطابق مرکزی حکومت کے وہ عہدیدار، افسران، بینک ملازمین، قومی سطح کی جامعات کے وہ عہدیدار وغیرہ جنہوں نے کشمیر میں 10 برس تک ملازمت کی ہو کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ افراد کے بچے بھی اقامتی سند حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

جموں و کشمیر ریلیف اینڈ ری ہیبلٹیشن کمشنر کے ذریعے تارکینِ وطن کے طور پر رجسٹرڈ افراد کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔

سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق اس قانون کے تحت اب تک 20 لاکھ سے زائد سندیں جاری کی جا چکی ہیں اور فائدہ اٹھانے والوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سابقہ ریاست کے مستقل شہری نہیں ہیں۔

کئی دہائیاں پہلے سابقہ مغربی پاکستان سے ہجرت کر کے جموں کے مختلف سرحدی علاقوں میں سکونت اختیار کرنے والے ہزاروں ہندو پناہ گزینوں کو بھی مستقل رہائشی ہونے کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔


  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG