رسائی کے لنکس

سینیٹ انتخابات: کیا اس بار بھی خیبر پختونخوا میں کوئی 'اپ سیٹ' ہو سکتا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبرپختونخوا میں 2018 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی ویڈیو اور بعض اُمیدواروں کے غیر متوقع طور پر منتخب ہونے کے بعد اس بار بھی سب نظریں یہاں ہونے والے انتخابات پر مرکوز ہیں۔

انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہی کرانے کے فیصلے کے بعد صوبے کی 12 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ ایسے میں تین آزاد اُمیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پراُمید ہے کہ وہ 12 میں سے 11 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس مقصد کے لیے حکمراں جماعت نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر کے ایک نشست پر اُن کے اُمیدوار کو کامیاب کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف میں شامل چار جماعتوں نے اصولی طور پر مشترکہ امیدواروں کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبرپختونخوا میں پارٹی پوزیشن

خیبر پختونخوا اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 145 ہے جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اپنے 95 اراکین کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بھی چار اراکین کی حمایت حاصل ہے جب کہ دو آزاد اراکین اسمبلی بھی حکمراں اتحاد کے ساتھ ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل سیاسی جماعتوں کے اراکین کی تعداد 40 ہے جن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 15، عوامی نیشنل پارٹی 12، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سات اور پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) کے پانچ اراکین جب کہ ایک آزاد رکن شامل ہے۔

اس مرتبہ بھی سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہو گا۔
اس مرتبہ بھی سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہو گا۔

اسی طرح جماعت اسلامی کے تین اور کوہاٹ سے آزاد رکن امجد آفریدی کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت سے حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد اب 44 تک جا پہنچی ہے۔

جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جنرل نشستوں پر، پاکستان پیپلز پارٹی ٹیکنو کریٹس جب کہ جماعتِ اسلامی خواتین کے لیے مخصوص نشست پر انتخابات میں حصہ لے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کے اُمیدوار

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عطا الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی ہدایت اللہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عباس آفریدی جنرل نشستوں پر امیدوار ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر ٹیکنو کریٹس اور جماعتِ اسلامی کی عنایت بیگم خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار ہیں۔

آزاد اور حکمران جماعت سے ناراض اراکین کی حمایت کے حصول کے بغیر حزبِ اختلاف کے لیے تمام پانچ مشترکہ امیدواروں کی کامیابی ناممکن دکھائی دیتی ہے مگر حزبِ اختلاف کے بعض رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ پہلی اور دوسری ترجیح کی گنتی میں اپوزیشن اُمیدواروں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

اس طرح اسمبلی میں موجود آزاد اراکین کو تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ان تین اراکینِ اسمبلی کی حمایت کے حصول کے لیے حکمران جماعت اور حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے رہنما سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔

حکمراں اتحاد کے اُمیدوار

حکمراں اتحاد کے جنرل نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کے تاج محمد آفریدی کے علاوہ شبلی فراز، محسن عزیز، لیاقت خان ترکئی اور ذیشان خانزادہ شامل ہیں جب کہ فیصل سلیم الرحمان پہلی بار کسی بھی جمہوری عمل میں شامل ہو رہے ہیں۔

ان اُمیدواروں میں لیاقت علی خان ترکئی، ذیشان خانزادہ اور فیصل سلیم الرحمان ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔

ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف نے دوست محمد خان محسود اور ڈاکٹر محمد ہمایوں کو نامزد کیا ہے۔ خواتین کی نشستوں پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور فلک ناز چترالی پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار ہوں گی۔

اقلیتوں کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف نے گردیپ سنگھ کو نامزد کر دیا ہے جو آنجہانی سردار سورن سنگھ کے صاحبزادے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے دعوے

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کے نامزد کردہ امیدوار 12 میں سے 11 نشستوں پر کامیاب ہوں گے جب کہ حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کی کوشش ہے کہ حکمران جماعت کے اندرونی معاملات اور اختلافات سے فائدہ اٹھا کر تمام نامزد پانچ مشترکہ امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔

2018 کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدوار امجد آفریدی نے پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت احتیار کی ہے جب کہ نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کے ایک نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کو وزارت سے الگ کر دیا گیا ہے۔ تاہم لیاقت خٹک نے اختلافات کے باوجود سینیٹ انتخابات میں پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔

گزشتہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے ویڈیو اسکینڈل کے بعد وزارت سے برطرف کیے جانے والے وزیرِ قانون سلطان محمد خان سے بھی وزیر اعلیٰ محمود خان نے ملاقات کی تھی۔ جس میں سلطان محمد خان نے سینیٹ انتخابات میں پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

XS
SM
MD
LG