رسائی کے لنکس

بھارتی کسان نئے زرعی قوانین کو اپنی بقا کے لیے خطرہ کیوں قرار دے رہے ہیں؟


بھارتی حکومت کی زرعی پالیسوں کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان (فوٹو، پرکاش سنگھ، اے ایف پی)
بھارتی حکومت کی زرعی پالیسوں کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان (فوٹو، پرکاش سنگھ، اے ایف پی)

بھارت میں متعارف کرائے گئے تین نئے متنازع زرعی قوانین پر شمالی بھارت کے ہزاروں کسانوں نے گزشتہ تین ماہ سے زیادہ عرصے سے احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے۔ کسان اِن قوانین کو زراعت سے حاصل ہونے والی اپنی پہلے سے ہی کم آمدن کیلئے ایک خطرہ قرار دے رہے ہیں، کیونکہ یہی ان کا واحدذریعہ معاش ہے۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ انجنا پسریچہ کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں اب تک کی سب سے بڑی کسان تحریک میں پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش ریاستوں کے کسانوں نے بھارت کے دارالحکومت کو جانے والی شاہراہ کے کناروں پر ٹریکٹر ٹرالیاں کھڑی کر رکھی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان قوانین کو ختم کیا جائے۔

احتجاج کے جواب میں بھارتی حکومت نے پیشکش کی تھی کہ وہ ان قوانین کے نفاذ کو ڈیڑھ سال کیلئے موخر کر سکتی ہے۔ تاہم کسانوں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ۔کسانوں کا موقف ہے کہ متنازع قوانین کے نفاذ سے، زرعی شعبے پر کارپوریٹ سیکٹر یعنی نجی شعبہ کا کنٹرول ہو جائے گا، جس سے ان کی اجناس کی قیمتوں میں کمی ہو جائے گی۔

حکومت کا موقف ہے کہ نئے قوانین سے اس شعبے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے کسان اپنی اجناس کو نجی کمپنیوں کو بیچ سکیں گے اور جس سے دیہی آمدن میں بہتری آئے گی۔

کسانوں کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ حکومت گندم، چاول اور گنے جیسی 23 فصلوں کیلئے خود امدادی قیمت متعین کرے اور وہی کسانوں سے اجناس خریدے۔ جب کہ اس عمل کو قانونی درجہ دیا جائے۔ کسان، حکام کی جانب سے زبانی یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں کہ یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔

کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں
کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں

دریا پور نامی گاؤں کے ایک کسان بھگوان داہیہ کہتے ہیں کہ نجی کمپنیاں ہماری فصلوں کی اچھی قیمت ادا نہیں کریں گی، اس لئے امدادی قیمتوں کی یقین دہانی کو حکومت قانونی درجہ دے۔

گو کہ حالیہ مہینوں میں کسانوں اور حکومت کے درمیان بات چیت کے گیارہ ادوار ہو چکے ہیں، لیکن حکومت کسانوں کو قائل نہیں کر سکی کہ نئی اصلاحات سے زراعت میں جدت آئے گی جو اِن کیلئے فائدہ مند ثابت ہو گی۔

حکام کاکہنا ہے کہ وہ دیہی سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گی، اور دیہاتوں کے ارد گرد زرعی صنعت کو فروغ دیگی، جس سے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے قوانین سے چھوٹے رقبوں کے مالک کسانوں کو کارپوریشنوں کیلئے کنٹریکٹ فارمنگ کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔

زرعی شعبے کی معیشت کے ایک ماہر، دویندر شرما کہتے ہیں کہ کسان ایک یقینی آمدن کی آس رکھتے ہیں، اور یہ ایک جائز مطالبہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت صنعتی شعبے میں کم سے کم اجرت مقرر کرتی ہے، تو پھر فصلوں کی امدادی قیمت کیوں نہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ کسانوں کو بھی تو تحفظ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں زیادہ تر کسان کم ہوتی ہوئی اپنی آمدن کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔

کسانوں نے سڑکوں کے کنارے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ اور مطالبات تسلیم ہونے تک واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔
کسانوں نے سڑکوں کے کنارے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ اور مطالبات تسلیم ہونے تک واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔

دریا پور کے رہائشی ایک 63 سالہ کسان نے بتایا کہ گزشتہ 10 سے 20 سالوں کے درمیان ان کے منافع میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فصل اگانے میں زیادہ خرچہ آتا ہے، کیونکہ ڈیزل، کھاد، اور بیج کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اجناس کی قیمتیں وہی رہیں۔

ریاست ہریانہ کے گاؤں دریا پور کے کسانوں نے دیگر مسائل کی جانب بھی توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ برسوں تک فصلوں کی مختلف اقسام کی زبردست پیداوار حاصل کرنے کے بعد، زمین کی طاقت کم ہو گئی ہے، اور زیرِ زمین پانی کی سطح بھی مزید نیچے گر گئی ہے، جس کی وجہ سے آبپاشی اور کھادوں پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تغیر کے باعث فصلوں کی پیداوار بھی زیادہ غیر یقینی ہو گئی ہے۔ شدید موسموں کی وجہ سے بہت سی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔

ایک نوجوان کسان، منوج گولیا نے بتایا کہ پہلے ہم ایک فصل سے تین سے چار سو ڈالر کما لیتے تھے۔ لیکن اب، فصل اگانے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث آمدنی میں کمی ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے نوجوان افراد زراعت کے پیشے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سارا دن محنت کرتے رہتے ہیں لیکن نفع بہت ہی کم ملتا ہے۔

گولیا کہتے ہیں کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسان اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں کہ وہ نجی کمپنیوں سے اپنی فصلوں کی قیمت طے کرنے کے لیے گفت و شنید کر سکیں۔ ان کاکہنا ہے کہ موجودہ نظام میں کم از کم کسانوں کو کچھ رقم تو مل جاتی ہے۔

دریا پور کے کسان بھی بھارت میں نئے زرعی قوانین کو اپنی بقا کیلئے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG