امریکہ کے ایوانِ زیریں ہاؤس آف ریپریزنٹیٹو (ایوانِ نمائندگان) نے صدر جو بائیڈن کے 19 کھرب ڈالر کے کرونا ریلیف پیکج کی منظوری دے دی ہے۔
بیس جنوری کو صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کرونا پیکج کی کانگریس سے منظوری بائیڈن انتظامیہ کی پہلی بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ کیوں کہ امریکی سینیٹ پہلے ہی اس بل کو منظور کر چکی ہے اور اب بل کو حتمی منظوری کے لیے صدر بائیڈن کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
ایوانِ نمائندگان سے بدھ کو منظور ہونے والے کرونا پیکج بل میں مختص رقم عوام کی مالی معاونت کے علاوہ کاروباری سرگرمیوں کو استحکام بخشنے پر بھی خرچ کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کے مطابق صدر بائیڈن کرونا ریلیف پیکج بل پر جمعے کو دستخط کریں گے۔
ایوانِ نمائندگان کی دونوں بڑی جماعتوں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے پارٹی لائن کے تحت کرونا ریلیف پیکج بل پر ووٹ کیا تھا۔ 220 ارکان نے بل کی حمایت اور 211 نے اس کی مخالفت کی۔
ری پبلکن ارکان نے بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑا پیکج ہے جس میں ان لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا جنہیں سب سے زیادہ مالی امداد کی ضرورت ہے۔
ایوانِ نمائندگان میں اقلیتی جماعت ری پبلکن کے سربراہ کیون میکارتھی نے منگل کو کرونا ریلیف پیکج بل کو انتہائی 'مہنگا، کرپٹ اور لبرل' قرار دیا تھا۔
کرونا ریلیف پیکج کیا ہے؟
کرونا ریلیف پیکج کے تحت ریاستوں اور شہری حکومتوں کو کرونا وبا کے اثرات سے نکالنے کے لیے 350 ارب ڈالرز فراہم کیے جائیں گے۔
پیکج کے تحت امریکی شہریوں میں 1400 ڈالر کے چیک تقسیم ہوں گے اور عمر کے لحاظ سے بچوں کو تین ہزار یا 3600 ڈالرز دیے جائیں گے۔
ایسے ملازمین جو کرونا وبا کے باعث بے روزگار ہو گئے تھے انہیں رواں برس ستمبر کے آغاز سے ہفتہ وار 300 ڈالرز ملنا شروع ہو جائیں گے۔
کرونا ریلیف پیکج میں اربوں ڈالرز کے فنڈز کرونا ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور ویکسین کی تقسیم کے لیے بھی رکھے گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اسے تاریخی قانون سازی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے وبا کے اثرات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ امریکی شہریوں کو براہِ راست امداد ملے گی اور ملکی معیشت دوبارہ مستحکم ہونا شروع ہو گی۔
کانگریس سے منظور ہونے والے پیکج کا گزشتہ برس سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں منظور ہونے والے 'کرونا وائرس ریلیف' سے تقابلی جائزہ کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ نئے پیکج میں چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کو قرض فراہم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس حکومتی امداد سے فائدہ اٹھانے والی بڑی کاروباری کمپنیوں نے چھوٹے کاروباریوں کو کچل کر رکھ دیا تھا۔
یاد رہے کہ کرونا وبا کے باعث امریکہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ اموات اور لگ بھگ تین کروڑ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ وبا کے نتیجے میں کروڑوں افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا جب کہ متعدد چھوٹے بڑے کاروباری افراد کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔