کراچی کے متمول علاقے گلشن اقبال کے رہائشی ارسلان احمد، ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو اکثر بہتر سے بہتر گاڑی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
مارکیٹ میں الیکٹرک کار کی بازگشت سنائی دی اور انٹرنیٹ پر اس کے کئی فیچرز دیکھنے کے بعد ان کا دل چاہا کہ اس کی خریداری کریں۔ لیکن بات جب قیمت پر آئی تو معلوم ہوا کہ بہتر آمدن رکھنے کے باوجود بھی وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ روپے کی گاڑی خریدیں اور پھر اس کی درآمد پر آنے والا خرچہ بھی برداشت کریں۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس کی خریداری کے بعد بھی وہ اس گاڑی کو فی الوقت لمبے روٹ پر استعمال نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ اس مقصد کے لیے چارجنگ کی سہولت ہر جگہ باآسانی دستیاب نہیں۔
الیکٹرک گاڑیاں اور حکومتی پالیسی
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے 2019 کے آخر میں ملک میں الیکٹرک وہیکلز یعنی بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے پالیسی کی منظوری دی تھی جس کا مقصد آلودگی سے بچاؤ، کاربن کے اخراج کو کم کرنا اور عوام کو سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنا بتایا گیا تھا۔
حکومت کے مطابق اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت لگ بھگ 13 ارب ڈالر کا خام تیل در آمد کرتا ہے۔ اگر گاڑیاں بجلی پر چلنے لگیں تو یقیناََ اس کا اثر درآمدی بل پر بھی کمی کی صورت میں پڑے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگر 2030 تک پاکستان 30 فی صد گاڑیوں کو بجلی پر تبدیل کر دے تو اس سے دو ارب ڈالرز سالانہ کا زرِ مبادلہ بچایا جا سکے گا۔
واضح رہے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا خرچہ دیگر کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم ہوتا ہے۔
اس حوالے سے وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ اس وقت چین بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا سب سے بڑا استعمال کنندہ اور برآمد کنندہ ہے۔ لیکن چین کی تیار کردہ گاڑیاں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو (بائیں جانب اسٹیئرنگ والی) ہوتی ہیں۔ جب کہ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ چین کی کمپنیاں پاکستان میں اگر سرمایہ کاری کریں۔ تو وہ رائٹ ہینڈ (دائیں جانب اسٹیئرنگ والی) الیکٹرک گاڑیاں بنانے کا مرکز بنے جس سے مقامی مارکیٹ کی ضروریات بھی پوری ہوں گی جب کہ یہ گاڑیاں برآمد بھی کی جا سکیں گے۔
اس پالیسی فریم ورک کے تحت 2030 تک 30 فی صد گاڑیوں کو بجلی پر چلانے کا ہدف ہے۔ جب کہ آئند چار برس کے دوران بجلی پر ایک لاکھ گاڑیاں اور پانچ لاکھ کے قریب بجلی سے چلنے والے رکشے اور موٹر سائیکلز متعارف کرائے جانے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے بجلی سے چلنے والی کاروں سے متعلق بھی پالیسی کی حتمی منظوری دی ہے جس کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس پر عمل درآمد میں تیزی آ سکے گی۔
بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی پالیسی پر عمل درآمد کس قدر آسان ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کیا واقعی اس قدر آسان ہے۔ تو ایسا ہونے میں دیر کیسی؟ 'ٹاپ لائن سیکورٹیز' میں سینئر ریسرچ اینالسٹ فواد بصیرکا کہنا ہے کہ اس پالیسی کی اچھی بات تو یہ ہے کہ ان گاڑیوں کے متعارف کرانے سے ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ماحول میں ایندھن کے باعث دھواں چھوڑتی گاڑیوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں یقینی طور پر مدد ہو گی جس سے فضائی آلودگی میں کمی آئے گی۔
ان کے مطابق وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑی چلانے میں خرچہ بھی کم ہو گا۔ تاہم ابھی اس بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ بجلی سے چلنے والی ان گاڑیوں کا خرچہ 50 فی صد تک تو کم ہی ہو گا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کو درآمد کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہی ہے کہ اس وقت ہمارے پاس کمرشل چارنگ اسٹیشنز موجود نہیں ہیں۔ گاڑیاں لانے کے لیے پہلے اس شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔ اور انٹر سٹی بس روٹس پر چارجنگ کی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ کیوں کہ اس وقت مارکیٹ میں موجود چند گاڑیوں کو اوسطاََ 200 کلومیٹرز کے بعد چارجنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے عام طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے مالکان فی الوقت انہیں شہروں ہی میں چلانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک اسٹیشن پر الیکٹرک گاڑیوں چارجنگ کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ جب کہ کراچی میں اس مقصد کے لیے بجلی فراہم کرنے والے نجی ادارے کے- الیکٹرک اور شیل کے درمیان چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آئندہ چند ماہ میں شہر کے پوش علاقے ڈیفنس اور دو دیگر مقامات پر ابتدائی طور پر چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔
فواد بصیر کہتے ہیں کہ پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے بڑے مینوفیکرچرز جیسے سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا تینوں کے پاس فی الوقت دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا کوئی بہت زیادہ اسٹاک موجود نہیں ہے۔ تو انہیں یہاں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے آمادہ کرنا خود ایک بہت بڑا کام ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے اب پاکستان میں پہلے سے موجود کمپنیاں تو یہی رائے تشہیر کر رہی ہیں کہ پہلے حکومت کو چاہیے کہ ہائی برڈ گاڑیوں پر اور پھر دوسرے مرحلے میں الیکٹرک گاڑیوں پر منتقل ہوا جائے۔ حالاں کہ دونوں اقسام پر حکومت کی جانب سے کچھ مراعات کا اعلان کرکے انہں فروغ دیا جا سکتا ہے۔
فواد بصیر نے مزید بتایا کہ چین کی کمپنی ایم جی موٹرز کے بارے میں یہ ضرور سننے میں آیا ہے کہ وہ پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز بنانے کے لیے پلانٹ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہی لیکن اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت فی الوقت نظر نہیں آئی۔
اس رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ ایم جی زیڈ ایس ماڈل کی الیکٹرک وہیکل مارکیٹ میں متعارف کرائے گی۔ لیکن اس بارے میں ابھی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
فواد بصیر کا کہنا ہے کہ فی الوقت پاکستان بڑی تعداد میں گاڑیاں درآمد ہی کر رہا ہے جو یہاں کے پلانٹس میں لاکر اسمبل کی جاتی ہیں اور اب بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے اسمبلنگ پلانٹس ہی لگیں گے جس کے لیے ضروری مال تو درآمد ہی کیا جائے گا۔
کیا یہ گاڑیاں عام آدمی کی دسترس میں ہوں گی؟
اس وقت بہت ہی کم پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں منگوائی ہیں۔ ظاہر ہے اس کی ایک وجہ تو ملک میں ان گاڑیوں کی چارجنگ کی سہولت نہ ہونا ہے لیکن دوسری اہم وجہ فی الوقت ان گاڑیوں کا بے حد مہنگا ہونا بھی ہے۔
کاروں کی قیمت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی اس وقت بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی اوسط قیمت 30 ہزار ڈالرز سے لے کر 70 ہزار ڈالرز تک ہے۔ جب کہ امریکہ میں اس وقت بجلی سے چلنے والی کار کی اوسط قیمت 55 ہزار ڈالرز یعنی لگ بھگ 85 لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ جب کہ پاکستان میں یہ کاریں درآمد کرنے کا خرچہ اس کے علاوہ ہو گا۔ تاہم چین کم قیمت کی الیکٹرک گاڑیاں بھی تیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جن کی قیمت چھ سے آٹھ ہزار ڈالرز تک ہو گی۔
پاکستان الیکٹرک گاڑیوں کے ڈیلرز کے مطابق ملک میں اس وقت 'آڈی' کی ای-ٹرون کار جو بجلی سے چلتی ہے، کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ اسی طرح بی ایم ڈبلیو کی بجلی سے چلنے والی گاڑی کی قیمت بھی مقامی مارکیٹ میں ڈیڑھ کروڑ سے اوپر ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فی الوقت پاکستان جیسے ملک میں الیکٹرک گاڑیاں فی الحال متوسط طبقے کی پہنچ سے کافی دور ہیں۔ اور بہت ہی محدود پیمانے پر ہی لوگ خرید پا رہے ہیں۔
'بجلی سے چلنے والی کاروں کا مستقبل حکومتی پالیسی پر ہی ہے'
دوسری جانب پاکستان آٹو مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے رہنما عبدالوحید اس بارے میں پُر امید دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان جلد بجلی سے تیار گاڑیوں سے متعلق طے کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت جلد صارفین کے لیے گاڑیوں کی بڑی رینج مہیا ہو گی۔ لیکن اس کا بنیادی انحصار اس پر ہے کہ حکومت کس قسم کی مراعات کا اعلان کرتی ہے۔
تاہم وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ روایتی گاڑیاں بنانے والے مقامی گروپس کی جانب سے اس بارے میں کوئی مزاحمت پائی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اس کو مزاحمت سمجھتے ہیں جب اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس بارے میں فیزبلٹی مزید واضح کی جائے۔ چارجنگ کی سہولت کے لیے نیٹ ورک قائم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی اس بارے میں پالیسی مزید واضح ہونے تک انتظار کرنا ہو گا۔ تب ہی اس کی مارکیٹ پیدا ہو سکے گی۔
حکومت کہتی ہے کہ لاہور کے قریب رائے ونڈ کے مقام پر الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پہلا اسپیشل اکنامک زون قائم کیا جا رہا ہے جس میں سب سے پہلے چین کی سرکاری کمپنی اور ایم جی موٹرز پاکستان مشترکہ طور پر 67 کروڑ ڈالرز کی غیر ملکی اور 64 کروڑ ڈالرز کی مقامی سرمایہ کاری سے ملک میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں تیار کریں گی۔