رسائی کے لنکس

خانہ جنگی کے دس سال: شام میں بسنے والے 'صدی کے عظیم ترین متاثرین' کیسے بنے؟


دس سالہ جنگ کے بعد شام کے شہر ادلب کے چوک میں جمع ہونے والے مظاہرین (فوٹو، محمد دابول، وی او اے)
دس سالہ جنگ کے بعد شام کے شہر ادلب کے چوک میں جمع ہونے والے مظاہرین (فوٹو، محمد دابول، وی او اے)

شام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب گئیر پیڈرسن نے اس بات پر 'گہرے افسوس' کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ اب تک شام کے بحران کو حل کرنے کا کوئی طریقہ تلاش نہیں کر سکا۔ انہوں نے شام کے بحران کے دس سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے فورم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'شام کا بحران حالیہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک شمار کیا جائے گا، اور شام کے عوام اس صدی کے عظیم ترین متاثرین کہلائیں گے۔'

وائس آف امریکہ کی نامہ نگار ہیدر مرڈوک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام کے زیادہ تر علاقوں میں بظاہر اب جنگ ختم ہو چکی ہے، جس سے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت فاتح نظر آتی ہے.

دس سال سے جاری خانہ جنگی میں لاکھوں افراد ہلاک یا بے گھر ہو چکے ہیں، لاتعداد افراد لاپتہ، زخمی یا پھر جیلوں میں اذیت ناک زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ کرنسی اپنی قدر کھو چکی ہے، اور پورا ملک ایک معاشی تباہی کی زد میں ہے۔

ترکی کی سرحد کے قریب موجود ایک شامی کیمپ کا منظر
ترکی کی سرحد کے قریب موجود ایک شامی کیمپ کا منظر

اب آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ادلیب اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں میں مقیم ہے، یہ علاقہ اپوزیشن کے آخری گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ۔۔ جنگ یہاں جمود کا شکار ہے۔ کبھی کبھار کوئی حملہ ہو جاتا ہے، جس کا کوئی فوری حل موجود نہیں.

ادلیب کے ایک چوک میں آویزاں بینر پر لکھا ہے کہ 'ہمارا انقلاب اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک زیتون اور گھاس موجود ہے'۔

یہاں مظاہرہ کرنے والوں میں، چار بچوں کے باپ انور الیوسف موجود ہیں، جو اپنی چار برس کی بچی کو گود میں اٹھائے کھڑے ہیں۔

انور کہتے ہیں کہ یہاں موجود مظاہرین آج بھی وہی مطالبہ کر رہے ہیں جو وہ 2011 میں کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس وقت تک گھر نہیں جائیں گے جب تک حکومت کا سربراہ اور سیکیورٹی فورسز گھر نہیں جاتیں، اور لوگوں کو اس کی بھی پرواہ نہیں کہ انہیں بے گھر چھوڑنا پڑا۔

قریب کے ایک بازار میں شادی شعیب انقلاب کے مستقبل کے بارے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ دس برسوں کے دوران، حکومت زیادہ تر اُن شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب رہی ہے، جو کبھی باغیوں کے زیر قبضہ تھے۔ شعیب کہتے ہیں کہ وہ بمشکل اپنے اہل خانہ کی دیکھ بھال کر پا رہے ہیں اور آزادی اور انصاف کے مطالبے دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔

شعیب کہتے ہیں کہ دس برس میں شام کی معیشت، تعلیم اور انصاف سمیت سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔

ایک تباہ شدہ گھر کے معائنے میں مصروف شامی بچہ
ایک تباہ شدہ گھر کے معائنے میں مصروف شامی بچہ

شعیب ادلیب میں موجود صورت حال کا موازنہ سرحد پار غزہ کے علاقے سے کرتے ہیں جو کہ فلسطینی علاقوں میں شامل ہے۔ دونوں علاقوں میں ایک طرف سرحد ہے اور دوسری جانب تنازع۔ لوگ بھوک، مفلسی اور ناداری سے بے حال ہیں لیکن وہ کہیں فرار نہیں ہو سکتے۔

تجزیہ کار بھی اس تقابل سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ادلیب کو کنٹرول کرنے والا گروپ، حیات تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس، غزہ کو کنٹرول کرنے والے گروپ حماس جیسا ہی ہے۔ حماس کو امریکہ اور دیگر ملکوں نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

ایچ ٹی ایس اپنے آپ کو شام کے اپوزیشن گروپوں کا ایک قوم پرست اتحاد قرار دیتا ہے، جس کا مقصد اسد حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کو شکست دینا ہے۔

ایچ ٹی ایس کے ترجمان ابو خالد الشامی نے کہا کہ یہ اتحاد ایک انقلاب ہے جو جرائم پیشہ گروپوں کو بھگانا چاہتا ہے۔ الشامی سرکاری اور روسی فوج کے کیمپوں سے سات کلو میٹر دور کھیتوں میں کھڑے تھے، انہوں نے بتایا کہ اتحاد چاہتا ہے کہ اسد کی فوج، ایران کی ملیشیا اور روسی غاصب شام سے نکل جائیں۔

بے گھر افراد کے کیمپ میں کیچڑ میں بھاگتے بچے
بے گھر افراد کے کیمپ میں کیچڑ میں بھاگتے بچے

جتنا ایچ ٹی ایس اور دیگر باغی گروپ یہ چاہتے ہیں کہ اسد حکومت شکست سے دوچار ہو، اتنا ہی صدر بشار الاسد چاہتے ہیں کہ وہ اپوزیشن گروپوں کو مار بھگائیں، جنہیں وہ تسلسل کے ساتھ دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔

گو کہ گزشتہ سال بھر سے جنگ رکی ہوئی ہے، مگر الشامی کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ بشر الاسد کی افواج بلآخر ادلیب اور اپوزیشن کے زیر کنٹرول شمال مغربی علاقے پر قبضہ جمانے کی کوشش کریں گی۔

ادلیب میں رہنے والے خاندانوں کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری افواج قبضہ کر لیتی ہیں تو وہ ادلیب سے بھاگ جائیں گے، کیونکہ وہ ایسے کسی علاقے میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے جہاں سرکاری افواج کا کنٹرول ہو۔

وائس آف امریکہ کی نامہ نگار کے مطابق، یہاں سے نکل بھاگنے کے لیے محفوظ سمت صرف ایک ہے، جو شمال کی جانب ترکی کی سرحد کو جاتی ہے۔

ترکی پہلے سے ہی 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ یہ تعداد دنیا میں کسی بھی ملک میں پناہ لینے والوں سے زیادہ ہے۔ ترکی واضح کرچکا ہے کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت نہیں دے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ترکی پہلے ہی علاقے میں اہم باغی گروپوں کی کھلے عام حمایت کر رہا ہے۔ یوں ایک طرف ترکی ہے جو باغیوں کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری جانب روس اور کسی حد تک ایران ہیں جو صدر اسد کی حمایت کر رہے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ترکی، مزید لاکھوں پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد کھولنے سے پہلے، جنگ کرے گا۔ اس صورت میں ترکی اور روس کے درمیان تنازعہ بڑھنے کا امکان ہے، جو تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں لاکھوں افراد بھوک سے تنگ، بے گھر اور معاشی طور پر تباہ حالی کا شکار ہیں اور ایسے میں جمود کی فضا بھی زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی۔

XS
SM
MD
LG