ترکی نے پاکستان کو لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی امریکی حکومت کے اعتراض کے بعد روک دی ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے متاثر ہونے سے پاکستان کو نقصان تو ہو گا لیکن پاکستان کے لیے دوسرا آپشن چینی ساختہ زیڈ-10 ہیلی کاپٹرز کی صورت میں موجود ہیں۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان جولائی 2018 میں ہونے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت استنبول کی جانب سے اسلام آباد کو 30 عدد اے ٹی اے کے ٹی- 129 گن شپ ہیلی کاپٹر فراہم کیے جانے تھے۔
خبر رساں ادارے 'بلومبرگ' کے مطابق ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کلن نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو ترکی کے ہیلی کاپٹرز کی فروخت روک دی ہے، جس کی وجہ سے اب اسلام آباد ہیلی کاپٹرز چین سے خریدے گا۔
ترکی ایرو اسپیس کے ٹی-129 ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کو فراہمی میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ اس کے انجنز بتائے جاتے ہیں جو کہ امریکی ساختہ ہیں۔
امریکہ نے 'ایل ایچ ٹی ای سی 800' انجن کے لیے ایکسپورٹ کلیئرنس روک دی ہے اور ٹی 129 ہیلی کاپٹروں میں یہی ٹیکنالوجی نصب ہے جس کے باعث اب یہ ہیلی کاپٹر پاکستان کو فراہم نہیں کیے جا رہے۔
ترکی سے معاہدے کے باوجود ہیلی کاپٹروں کے نا ملنے پر ردِ عمل جاننے کے لیے پاکستان کے دفترِ خارجہ اور فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) سے رابطہ کیا گیا۔ تاہم پاکستان نے اس حوالے سے اب تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔
ترکی کے ٹی-129 ہیلی کاپٹر اگرچہ پاکستان خریدنے کا خواہش مند تھا۔ لیکن سال 2020 میں ہی اسلام آباد کو ایسے اشارے مل رہے تھے کہ امریکی ساختہ انجن کی وجہ سے یہ ہیلی کاپٹر فراہم کیے جانے میں مشکلات ہیں۔
ترک ایرو سپیس ان ہیلی کاپٹرز کے لیے ترکی ساختہ انجنز بنانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ ٹی 129 ہیلی کاپٹر 76 راکٹس اور مختلف میزائلوں سے لیس کیا جا سکتا ہے جو کافی بلندی تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر ہر قسم کے موسم اور دن رات پرواز کرنے کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے بارے میں دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں پاکستان ہیلی کاپٹروں میں کافی عرصے سے دلچسپی رکھتا تھا اور اس سلسلے میں پہلی مرتبہ 2014 میں منصوبے پر کام شروع ہوا جس کے بعد ترکی اور پاکستان کے درمیان 2018 میں اس کی خریداری کا معاہدہ طے پایا۔
اُن کے بقول امریکہ کی جانب سے انجنز کی ایکسپورٹ کلئیرنس روکنے کی وجہ سے ان ہیلی کاپٹرز تک پاکستان کی رسائی میں رکاوٹ آئی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو براہِ راست امریکہ سے ہی بات کرنا ہو گی۔
طلعت مسعود کہتے ہیں یہ بات درست ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران افغانستان کے معاملے پر امریکہ کے پاکستان پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے اور اب بھی افغان مذاکرات کے لیے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں لیکن موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے چینی ہیلی کاپٹرز ہی سب سے مناسب ہوں گے تاہم وہ امریکی ٹیکنالوجی اور امریکی ہیلی کاپٹرز کے مقابلے میں کم درجے کے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ بھی اس بارے میں بات کرسکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال شاید فی الحال اس کی اجازت نہ دے۔
دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں روس کے ساتھ ڈیل کی صورت میں پاکستان کے پاس کریڈٹ یا مؤخر ادائیگیوں کی سہولت نہیں ہو گی لیکن چین کے ساتھ ڈیل کی صورت میں پاکستان کو یہ سہولت مل سکتی ہے۔ اس لیے پاکستان کے پاس سب سے بہتر آپشن چینی ساختہ زیڈ-10 ہیلی کاپٹروں کی خریداری ہی ہے۔
پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق ترکی امریکہ کے ساتھ اپنے معاہدوں کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی پاکستان کو ہیلی کاپٹرز فراہم نہ کرنے پر مجبور ہے۔
ان کے بقول اگر ترکی پاکستان کو یہ ہیلی کاپٹرز دے بھی دے تو اس کے واشنگٹن کے ساتھ دفاعی معاہدے متاثر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان کو ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب چین سے پاکستان نے فوجی ساز و سامان خریدا تو اس میں کچھ سامان امریکہ کا تیار کردہ تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو یہ آلات نہ مل سکے۔
جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق ماضی میں بھی امریکہ اور پاکستان کے دفاعی معاملات کی وجہ سے بعض معاملات میں رکاوٹیں آئی ہیں۔ ان کے بقول ایف سولہ طیاروں کا معاملہ سب کے سامنے ہے جس میں ادائیگی کے باوجود پاکستان کو ایف سولہ طیارے نہیں دیئے گئے تھے۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاعی تعلقات پر جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے اور مختلف اقسام کے جہاز پاکستان ترکی کو فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی دفاعی ضروریات کا زیادہ انحصار چین پر ہے لیکن پاکستان اس میں ترکی کی معاونت کا بھی خواہش مند ہے۔
امریکہ سے ان ہیلی کاپٹرز کی فراہمی کے لیے براہِ راست بات کرنے کے سوال پر امجد شعیب کہتے ہیں اسلام آباد کو ہیلی کاپٹرز کے لیے واشنگٹن سے بات نہیں کرنی چاہیے اور اپنی ضرورت کے لیے چینی ساختہ زیڈ-10 ہیلی کاپٹر لے لینے چاہیئیں۔
چینی اور امریکی ٹیکنالوجی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چین اس وقت بہت اچھی ٹیکنالوجی بنا رہا ہے جس میں اس کے ساتھ کئی ملک تعاون کر رہے ہیں۔
ان کے بقول جے ایف 17 تھنڈر پاکستان اور چین کی مشترکہ پیشکش ہے۔ لیکن اس کا انجن روس میں بن رہا ہے، اسی طرح ہیلی کاپٹرز کے لیے بھی مختلف ممالک کے اہم آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب چینی ساختہ زیڈ-10 ہیلی کاپٹر کے لیے ایک عرصے سے پاکستان اور چین کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن ترکی میں بننے والے ٹی 129 ہیلی کاپٹرز کی وجہ سے زیڈ-10 میں تاخیر ہوتی رہی۔
زیڈ-10 ہیلی کاپٹر کے اب تک چھ مختلف ورژن سامنے آچکے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر میڈیم اٹیک ہیلی کاپٹر تصور کیے جاتے ہیں جسے زیادہ تر اینٹی ٹینک وار فیئر کے ساتھ ساتھ فضا سے فضا میں لڑنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کو اس ہیلی کاپٹر کے تین یونٹس فراہم کیے جا چکے ہیں۔ لیکن سال 2017 میں پاکستان کے ٹی-129 ہیلی کاپٹر معاہدے کی وجہ سے اس بارے میں بات چیت روک دی گئی تھی۔
پاکستان ایک بار پھر زیڈ-10 ایم ای ورژن کے ہیلی کاپٹرز حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔
جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے مطابق پاکستان کی دفاعی ضروریات کے لیے زیڈ-10 ایک قابلِ اعتماد ہیلی کاپٹر ہو گا۔
یاد رہے کہ ٹی-129 ہیلی کاپٹرز کا پاکستان میں بھی معائنہ کیا جا چکا ہے اور یہ ہیلی کاپٹر سال 2018 میں 23 مارچ کی پریڈ میں بھی حصہ لے چکا ہے۔
ٹی-129 کی صلاحیت
امریکی ساختہ 'ایل ایچ ٹی ای سی 800' انجن کے ساتھ اس ہیلی کاپٹر میں دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے 20 ایم ایم گن موجود ہے جو 500 راؤنڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ 70 ایم ایم کے 76 راکٹس بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
ملٹی مقاصد کے مشن کے لئے اس ہیلی کاپٹر میں فضا سے زمین تک مار کرنے والے میزائل کے ساتھ فضا سے فضا تک مار کرنے والے اسٹنگر میزائل بھی لے جانے کی صلاحیت ہے۔
ہیلی کاپٹر میں تھرمل کیمرہ کے ساتھ ملٹی پل ٹارگٹ ٹریکنگ سسٹم بھی موجود ہے۔ لڑاکا طیاروں کی طرح اس ہیلی کاپٹر میں ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے بھی دیا گیا ہے۔