رسائی کے لنکس

جنگ بندی کی سعودی پیشکش میں کچھ بھی نیا نہیں: یمن کے حوثی باغیوں کا جواب


حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی جنگ بندی کی پیشکش پر کسی جوش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ فائل فوٹو
حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی جنگ بندی کی پیشکش پر کسی جوش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ فائل فوٹو

یمن کے ہوثی باغیوں نےسعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے بظاہر ٹھکر ادیا ہے کہ اس میں کسی نئی بات کی پیشکش نہیں کی گئی۔سعودی عرب نے پیر کے روز یمن کے حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش کی تھی، جس کے تحت یمن کے دارالحکومت میں ایک اہم ہوائی اڈے کو کھولنے کی اجازت دینے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ریاض سے ایک ٹیلی نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ اب حوثیوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حوثیوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اپنے مفادات کو ترجیح دیں گے یا ایران کے مفادات کو۔

سعودی اتحاد کے حمایت یافتہ یمن کے صدر عبد ربو منصور ہادی کی حکومت نے سعودی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن یمن کے ستر فیصد علاقے پر کنٹرول رکھنے والے ہوثیوں نے کسی بھی قسم کے جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔

وائس آف امیریکہ کی نامہ نگار مارگریٹ بشیر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہوثیوں کے ترجمان، محمد عبدل سلام نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ "ایسا کوئی بھی موقف یا کوشش جو گزشتہ چھ سال سے یمن میں جاری جارحیت اور جہازوں کو روکنے کی صورتحال کو زیرِ غور نہیں لاتا، جو کسی بھی عسکری یا سیاسی سمجھوتے میں سے انسانی عنصر کا الگ کرتا ہے، یا جو پابندیوں کو نہیں اٹھاتا، تو اس (پیشکش) میں سنجیدگی پیدا نہیں ہو تی اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے"۔

یاد رہے کہ ایسوسی ایٹڈ پریس نے گزشتہ روز رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب نے اس دفعہ حوثیوں کو دو رعائتیں دینے کی پیشکش کی ہے۔ پہلی رعایت ثنعا انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے متعلق ہے، جو یمن کے بیرونی دنیا سے رابطے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس ہوائی اڈے سے کمرشل پروازیں 2015 سے بند ہیں۔ تاہم عہدیدار ابھی یہ نہیں بتا رہے کہ وہ کونسے کمرشل روٹ کھلنے کی اجازت دیں گے۔

دوسری رعایت ہدیدا کی بندرگاہ سے متعلق ہے، جہاں سے تیل کی برآمدات پر وصول ہونے والے ٹیکس اور کسٹم کی فیسیں یمن کے سینٹرل بینک کے مشترکہ اکاؤنٹ میں جمع کی جائیں گی، جس تک حوثیوں اور یمن کی تسلیم شدہ حکومت کو برابر کی رسائی حاصل ہو گی، تاکہ سول ملازمین اور دیگر پروگرامز کے اخراجات پورے کئے جا سکیں۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اینٹونیو گتریز نے جنگ بندی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔ سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا ہے کہ سیکرٹری جنرل کے بقول، یمن میں جاری تنازعے اور یمنی عوام کی مشکلات کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ضروری ہے، اور اقوام متحدہ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔۔

فرحان حق کا کہنا تھا کہ سعوی پیشکش، یمن کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گرفتھس کی کوششوں سے مطابقت رکھتی ہے، جو کہ ملک بھر میں جنگ بندی، ثنعا ائیرپورٹ کو کمرشل پروازوں کیلئے کھولنے، اور ہدیدا کی بندرگاہ سے مزید ایندھن اور اشیائے خوردنی کی ترسیل اور تنازعے کے سیاسی عمل کے آغاز کیلئے سرگرم ہیں۔

حق کا کہنا تھا کہ خصوصی ایلچی ، ہوثیوں سمیت تمام فریقوں سے بات چیت کریں گے۔

اقوام متحدہ کاکہنا ہے کہ سولہ ملین یعنی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یمنی بھوک کا شکار ہیں، جبکہ ان میں سے پچاس لاکھ افراد قحط سالی سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہیں، اور ان میں سے پچاس ہزار کے قریب افراد پہلے ہی سے قحط سالی جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے یمن میں بنیادی انسانی ضروریات کیلئے چار ارب ڈالر امداد کی اپیل کی ہے، لیکن ابھی تک اُسے صرف اس کی نصف فنڈ موصول ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کی یہ تازہ ترین پیشکش برسوں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لئے کی جانے والی ان نئی کوششوں کا حصہ ہے، جو امریکہ کی جانب سے یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت ختم کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آئی ہے۔

امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے سابق صدر ٹرمپ کی یمن سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ حوثی باغیوں کو دہشت گردوں کی فہرست سے خارج اور امریکی امداد باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک پہنچانے کی اجازت دی گئی تھی۔

تاہم امریکہ نے سعودی عرب کے علاقے میں حالیہ حملوں کی مذمت کی ہے اور اس کے دفاع کیلئے اپنی حمایت کا بھی اعادہ کیا ہے۔

امریکہ نے حالیہ دنوں میں یمن کے لیے اپنے خصوصی نمائندے ٹم لینڈر کنگ کو بھی سیاسی تصفیہ کی کوششوں کے لئے خطے میں بھیجا۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے سعودی وزیر خارجہ سے یمن جنگ کے متعلق بات چیت کی ہے اور وہ "ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، جس سے یمن میں جنگ بند ہو، تمام فریق جنگ بندی کی پابندی کریں، تاکہ امدادی سامان شہریوں تک پہنچنے میں آسانی پیدا کی جا سکے"۔

سعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی کی تازہ پیشکش، یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب میں تیل صاف کرنے کی ریفائنریز پر ڈرون اور میزائلوں سے حملوں میں شدت پیدا ہونے کے بعد سامنے آئی ہے ۔ کرونا وائرس کی وبا کے دوران حوثیوں کے حملوں سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ پیدا ہوا تھا۔ مبصرین کے مطابق اس اقدام کا ایک اور مقصد صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کے ساتھ اپنی ساکھ کو بحال کرتے ہوئے تعلقات کو مضبوط بنانا بھی ہو سکتا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے شروع کی جانے والی یمن جنگ کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یمن جنگ کے دوران ایک لاکھ تیس ہزار عام شہری فضائی حملوں کا نشانہ بنے، جب کہ خوراک کی فراہمی کے راستے بند ہونے کی وجہ سے ملک اس وقت قحط سالی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

XS
SM
MD
LG