رسائی کے لنکس

امریکہ کا خطے میں امن کے لیے سعودی عرب میں نئے فوجی مراکز کے قیام پر غور


خلیج اومان میں ایرانی بحریہ کا جنگی جہاز میزائل اور ڈرون حملوں کی مشق میں شریک ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایرانی ہوثیوں کے ذریعے اس پر حملے کرتا ہے۔ 12 جنوری 2021
خلیج اومان میں ایرانی بحریہ کا جنگی جہاز میزائل اور ڈرون حملوں کی مشق میں شریک ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایرانی ہوثیوں کے ذریعے اس پر حملے کرتا ہے۔ 12 جنوری 2021

ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکی فوج سعودی عرب کے بحیرہ احمر کی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ مزید دو ہوائی اڈے کھولنے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔

امریکی فوج نے اس اقدام کو کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تیاری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج نے سعودی عرب کی ینبع بندرگاہ پر اپنا سامان اتار نے اور سامان لے جانے کا تجربہ کیا ہے۔ یہ بندرگاہ سعودی عرب کی اہم ترین تیل کی پائپ لائنوں کےقریب ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق بحیرہ احمر کی ساحلوں پر ینبع کے ساتھ ساتھ تبوک اور طائف میں امریکی ہوائی اڈے، امریکی فوج کو مزید متبادلات فراہم کریں گے، کیونکہ ان مقامات پر یمن سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی مشتبہ ڈرون حملے کرتے رہے ہیں۔

تاہم، یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات سن 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی کے قتل اور سعودی عرب کی یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔ مسلمانوں کیلئے مقدس سرزمین پر امریکی افواج کی عارضی تعیناتی سے بھی، شدت پسند مشتعل ہو سکتے ہیں۔

سینٹرل کمان کے ترجمان، امریکی بحریہ کے کیپٹن بِل اربن کا کہنا ہے کہ نئے ہوائی اڈوں کیلئے جگہ کی تلاش گزشتہ ایک سال سے جاری ہے، اور اس کا آغاز سن 2019 میں سعودی عرب کی تیل کی صنعت پر ہونے والے ڈرون میزائل حملوں کے بعد کیا گیا تھا۔

جو بائیڈن کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پالیسی کیا ہوگی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:27 0:00

ان حملوں سے سعودی عرب کی تیل کی پیداوار عارضی طور پر رک گئی تھی اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ سعودی عرب اور امریکہ نے حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا۔ ایران نے اِن حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا، جب کہ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ تاہم حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرون بظاہر ایران کے تیار کردہ تھے۔

کیپٹن بل اربن نے بیان میں کہا ہے کہ یہ فوجی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے معقول اقدامات ہیں جو کسی ہنگامی صورت حال میں، مزید سہولتوں کے عارضی اور مشروط استعمال کی اجازت دیتے ہیں، اور یہ کسی بھی لحاظ سے اشتعال انگیز نہیں ہیں، اور نہ ہی عمومی سطح پر خطے میں یا خصوصی طور پر سعودی عرب میں امریکی موجودگی کو وسعت دینے کی کوئی کوشش ہیں۔

یو ایس سینٹرل کمان کے سربراہ، یو ایس میرین جنرل فرینک مکینزی نے پیر کے روز ینبع کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران جنرل مکینزی کے ہمراہ سفر کرنے والے ڈیفنس ون اور اخبار وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹروں نے ہی سب سے پہلے امریکی فوجی منصوبہ بندی کی خبر دی تھی۔ سعودی عہدیداروں نے ابھی تک اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

XS
SM
MD
LG