سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پیر کو یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے داغے گئے چار میزائل اور چھ بارود سے لیس ڈرون تباہ کردیے ہیں۔
دوسری جانب حوثی باغیوں نے سعودی عرب میں تیل کی ریفائنری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
باغیوں کے ترجمان کے مطابق حوثی فورسز نے سعودی عرب کے جنوبی شہر جازان میں تیل کی بڑی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم سعودی حکام نے تیل کی کسی بھی تنصیب کے نشانہ بننے کی تصدیق نہیں کی۔
حوثیوں کے ترجمان یحییٰ ساریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حوثی فورسز نے سعودی عرب کے جنوب مغربی شہر خمیس مشیط میں پیٹریاٹ میزائل کے نظام کو نشانہ بنایا۔
ترجمان کے بقول سعودی شہروں جازان اور ابھا میں جنگی جہازوں، پائلٹوں کی رہائش گاہ اور دیگر تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ترجمان نے نجران ایئر پورٹ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ جازان شہر میں سعودی عرب کی تیل کی بڑی تنصیب کو تباہ کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
سعودی عرب کے شہر خمیس مشیط، ابھا، نجران اور جازان یمن کے سرحد کے قریب واقع ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی آئل کمپنی 'آرامکو' بحیرۂ احمر کے ساتھ واقع شہر جازان میں واقع ریفائنری سے یومیہ چار لاکھ بیرل تیل برآمد کرتی ہے۔ تیل کی یہ تنصیبات یمن کی سرحد سے 60 کلو میٹر دور ہیں۔
'آرامکو' کی جانب سے بھی حملے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے باغیوں اور مسلم ملکوں کی اتحادی فوج میں عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا جس کی مدت مئی کے آخر میں ختم ہو گئی تھی۔ معاہدے کے خاتمے کے بعد ایران نواز حوثی باغیوں نے سرحد پار سعودی عرب پر حملے ایک بار پھر شروع کر دیے تھے جو تاحال جاری ہیں۔
حوثی باغیوں نے جون میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر بھی میزائل داغے تھے جنہیں سعودی فوج نے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ سعودی عرب کی فوج کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان حملوں میں سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
حوثی باغیوں کے تازہ ترین حملے سے متعلق سعودی فوجی اتحاد کا کہنا ہے کہ میزائل اور بارود بردار ڈرون حوثیوں کے زیرِ کنٹرول یمن کے دارالحکومت صنعا سے سعودی عرب کی جانب داغے گئے تھے جنہیں تباہ کر دیا گیا ہے۔
بیان میں یہ واضح نہیں ہے کہ ان ڈرونز یا میزائلوں کو کس جگہ تباہ کیا گیا۔
قبل ازیں حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ ساریہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں حوثی فورسز نے وسیع فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے اس آپریشن کے حوالے سے تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحادی نے 2015 میں یمن میں اس وقت مداخلت کی تھی جب حوثی باغیوں نے 2014 کے آخر میں اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا تھا۔
حوثی باغی یمن کے کئی شہری علاقوں پر قابض ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں بدعنوانی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے حالیہ دنوں میں فریقین میں ورچوئل مذاکرات کا آغاز کیا تھا تاکہ یمن میں قیامِ امن کے لیے مستقل جنگ بندی اور اعتماد سازی کے اقدامات ہو سکیں۔
تاہم اعتماد سازی کے لیے کیے گئے اقدامات اس وقت پیچیدہ شکل اختیار کر گئے تھے جب جنگ بندی کی مدت ختم ہوئی اور فریقین کی جانب سے ایک بار پھر ایک دوسرے پر حملے شروع کر دیے گئے۔
اقوامِ متحدہ یمن میں جاری جنگ کو طویل ترین انسانی المیہ قرار دے چکا ہے۔ اس جنگ کے دوران اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔