امریکی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ بوسٹن میراتھن کے بمبار ژوخار سارنیف کی سزائے موت دوبارہ بحال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی ایک اپیل کی سماعت کی منظوری دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے جس کے تحت سابق انتظامیہ کے آخری چھ ماہ کی مدت میں چھ وفاقی قیدیوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس کیس کی سماعت خزاں میں شروع ہو گی اور یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ موجودہ انتظامیہ سارنیف کے کیس سے متعلق کیا اقدامات اٹھائے گی۔
مبصرین کے مطابق ایسی صورت حال امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے جو سزائے موت کے مخالف ہیں۔
یاد رہے کہ اس کیس کی ابتدائی سماعت اور سزا دلوانے کی کوشش پر مبنی قانونی کارروائی اوباما انتظامیہ کے دور میں ہوئی تھی جب جو بائیڈن نائب صدر تھے۔ لیکن صدر جو بائیڈن وفاقی سطح پر سزائے موت کو ختم کرنے کے حامی ہیں۔
پچھلے برس اگست میں امریکہ کی وفاقی اپیلز کورٹ نے سارنیف کی سزا یہ کہہ کر ختم کر دی تھی کہ اس کیس میں جج نے جیوری کے متعصب نہ ہونے کی پوری طرح کوشش نہیں کی تھی۔
امریکی محمکہ انصاف نے فوری طور پر اس کیس کی اپیل کی تھی اور استدعا کی تھی کہ کورٹ اس پر فوری فیصلہ سنائے۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا تھا کہ محکمہ انصاف جو بھی ضروری ہوا، کرے گا۔
امریکی شہر بوسٹن میں15 اپریل 2013 کو ہونے والی میراتھن ریس کے دوران دو بھائیوں تیمرلین سارنیف اور ژوخار سارنیف نے پریشر ککر بم دھماکے کرنے کی کوشش کی تھی۔
ژوخار سارنیف کے وکلا نے مقدمے کے آغاز میں اپنے موکل کی جانب سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی تیمرلین سارنیف کے ساتھ مل کر بوسٹن میراتھن میں دو بم رکھے تھے جو میراتھن کے آخر میں پھٹ گئے تھے۔ وکلا کا کہنا تھا کہ ژوخار اس واقعے میں کم قصوروار ہے کیونکہ اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ ان کا بڑا بھائی تیمرلین تھا۔
یاد رہے کہ تیمرلین سارنیف، جن کی عمر واقعے کے وقت 26 برس تھی، پولیس کے ساتھ مقابلے کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ بعد ازاں پولیس نے ژوخار سارنیف کو بوسٹن کے مضافات میں ایک کشتی میں زخمی حالت میں گرفتار کیا تھا۔
ژوخار سارنیف کے خلاف، جن کی عمر اس وقت 27 برس ہے، تمام 30 الزامات ثابت ہو گئے تھے۔ ان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال اور واقعے سے فرار ہوتے وقت میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کرنے کا الزام بھی شامل تھا۔
اپیلز کورٹ نے ان پر لگے کچھ الزامات کو چھوڑ کر، باقی سب الزامات میں جرم ثابت ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔