روس کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) کے رکن ممالک میں گہری رسائی حاصل کرنے کی کوششیں تیز کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
مغربی ملکوں کے انٹیلی جینس اہلکار کہتے ہیں کہ ماسکو کی توجہ اتحادی ملکوں کی دفاعی وزارتوں میں جاسوسوں کی بھرتی پر مرکوز ہے۔
رواں ہفتے اٹلی نے روس کے دو سفارت کاروں کو ملک سے بے دخل کر دیا تھا کیوں کہ وہ اطالوی بحریہ کے ایک کپتان سے حساس ملٹری دستاویز وصول کرنے کے بدلے اسے کیش رقم دیتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
اطالوی نیوی کے 54 سالہ افسر والٹر بائیوٹ ایک عشرے سے روم میں وزارتِ دفاع میں چیف آف دی ڈیفنس اسٹاف کے دفتر میں کام کر رہے تھے۔ اٹلی کے ایک اخبار کے مطابق والٹر بائیوٹ کی یونٹ نیٹو کی فائلوں سمیت انتہائی خفیہ دستاویز کی نگراں ہے۔
اٹلی کے قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے مطابق بحریہ کے افسر بائیوٹ ایک فلیش ڈرائیو میں رکھی گئی دستاویز روسی جاسوسوں کو دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑئے گئے تھے جنہیں جاسوسی اور ریاست کی سلامتی کے متعلق سنجیدہ جرائم کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
بائیوٹ روسی رابطوں کے لوگوں سے کئی بار مل چکے تھے اور ہر ملاقات پر انہیں پانچ ہزار امریکی ڈالرز ادا کیے جاتے تھے۔
اٹلی کے ایک سرکاری اہل کار نے وائس آف امریکہ کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بائیوٹ کی گرفتاری روس کی اندرونی انٹیلی جنس ایجنسی 'اے آئی ایس آئی' کی بحریہ کے افسر کی کئی ماہ کی نگرانی کے بعد عمل میں آئی ہے۔
اہلکار نے بائیوٹ کی اٹلی میں نگرانی کا امریکہ میں 'ایف بی آئی' کی ایک روسی جاسوس رابرٹ ہینسن کی 2001 میں کاؤنٹر ایسپیوناج آپریشن میں نگرانی سے موازنہ کیا ہے۔
بائیوٹ کو ایسے موقع پر گرفتار کیا گیا ہے جب چند ہفتے قبل ہی بلغاریہ نے جاسوسی کے الزام میں روس کے دو سفارت کاروں کو ملک سے بے دخل کر دیا تھا۔
بلغاریہ نے وزارتِ دفاع کے اہلکاروں سمیت چھ افراد کو تحویل میں لے لیا تھا اور ان پر خفیہ اور یورپی یونین کی معلومات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس سے قبل ہالینڈ نے بھی دسمبر میں روس کے دو سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا تھا اور کہا تھا کہ روس ہالینڈ کے ٹیکنالوجی کے شعبے میں جاسوسوں کا ایک جال بنا رہا تھا۔
'امید ہے الزامات سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے'
روس نے کہا ہے کہ اس کے خلاف لگائے گئے جاسوسی کے الزامات اٹلی کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا سبب نہیں بنیں گے۔
روسی صدارتی آفس کے ترجمان کا صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مثبت اور خوشگوار تعلقات قائم رہیں گے۔
دریں اثنا روس نے ہالینڈ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر انہیں رد کر دیا تھا اور ماسکو نے ان الزامات کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے الزامات کو برسلز کی متصادم پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔