ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے نیٹو اتحادی ملک ترکی پر اس وجہ سے پابندیاں عائد کر دی ہیں کیونکہ اس نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود روس سے اس کا میزائل سسٹم خریدنے کا سودا کیا ہے۔ ترکی نے اس امریکی اقدام کی مذمت کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی نے فی الحال کوئی جوابی اقدام نہیں کیا جس سے بظاہر یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ نومنتخب جو بائیڈن کے تحت نئی انتظامیہ آنے کا انتظار کر رہا ہے۔
تاہم ترک وزیر خارجہ میولت چاؤشوغلو نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ہم اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور امریکہ سے اپیل کرتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو وہ اپنی اس غلطی کو درست کرے۔
ترکی نے 2017 میں روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدا تھا جس کے نتیجے میں اس پر ٹرمپ انتظامیہ نے کئی بار انتباہ کرنے کے بعد پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ روسی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے جب کہ انقرہ اس سے انکار کرتا ہے۔
یہ رپورٹس موجود ہیں کہ ایس-400 میزائل سسٹم امریکہ کے جدید ترین فائٹر جیٹ ایف-25 کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ترکی پہلے ہی روس کو اس خریداری کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے۔ اور اب اسے ایف-35 طیاروں کی خریداری سے روکا جا رہا ہے۔
ترکی کو ایس-400 میزائل سسٹم کے پارٹس 2019 میں ملنا شروع ہو گئے تھے۔
تازہ ترین امریکی پابندیوں کا ہدف ترکی کی فوجی ساز و سامان خریدنے والی ایجنسی بنی ہے۔ ان پابندیوں کے تحت اس کے امریکہ کے لیے ایکسپورٹ لائسنس اور قرضوں کو روک دیا گیا ہے اور اس ایجنسی کے لیے کام کرنے والے کئی افراد بھی ان پابندیوں کی زد میں آ گئے ہیں۔
ترکی کی فوجی آلات سے متعلق ایجنسی کے سربراہ اسماعیل ڈمیر نے، جو امریکی پابندیوں کا سب سے اہم ہدف بنے ہیں، اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ میرے یا میرے ادارے کے متعلق بیرون ملک سے کیا جانے والا کوئی فیصلہ میرے یا میری ٹیم کے عزم کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
تاہم انقرہ کی جانب سے تاحال محدود پیمانے پر ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی اس فیصلے کے خلاف مناسب وقت پر ضروری اقدامات کرے گا۔