امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں ملک میں کرونا وبا سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات، معیشت کی بحالی، معاشی مساوات، گن وائلنس کے خاتمے سمیت کئی اہم اقدامات کا اعادہ کیا ہے۔
بدھ کو اپنے خطاب کے دوران صدر بائیڈن نے ملکی داخلی امور کے ساتھ ساتھ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا، موسمیاتی تغیر، چین کے ساتھ تعلقات جیسے خارجہ امور پر بھی بات کی۔
صدر بائیڈن نے بچوں کی کفالت میں ٹیکس چھوٹ دینے، کم از کم اجرت 15 ڈالر کرنے، خاندانوں کو 'افورڈ ایبل ہیلتھ کیئر ایکٹ' کے تحت صحت کی سہولتوں تک مزید بہتر رسائی دینے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔
انہوں نے امریکی بچوں اور خاندانوں کی بحالی، 12 سال کی قومی سطح پر مفت تعلیم میں کمیونٹی کالجز کے دو سال کے پروگرامز کو شامل کرنے، امیر ترین امریکی طبقے سے ٹیکس وصولیوں کی شرح میں اضافے کا بھی اعادہ کیا۔
اپنے خطاب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ اپنی حکومت کے ابتدائی 100 روز کے بعد وہ قوم کو بتا سکتے ہیں کہ امریکہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کے بقول خطرات کو امکانات میں، بحران کو مواقع میں اور رکاوٹ کو طاقت میں بدل دیا گیا ہے۔
ان کے بقول، "مجموعی طور پر اپنے پہلے 100 دنوں میں ہم نے اپنی جمہوریت پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ جمہوریت اب بھی کار گر ہے۔"
کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں صدر بائیڈن نے اپنی حکومت کے اولین 100 روز کی کارکردگی پیش کی اور خطاب کے شروع میں کرونا وائرس کی عالمی وبا اور اس سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں کو بیان کیا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ جب انہوں نے عہدۂ صدارت سنبھالا تو ملک کو کرونا جیسی وبا کا سامنا تھا، ملک معاشی بحران سے گزر رہا تھا اور ان کے بقول امریکہ کی جمہوریت کو خانہ جنگی کے بعد بدترین حملے کا سامنا تھا۔
'امریکی شہریوں کو ویکسین لگانے کا وعدہ پورا کر دیا'
صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے امریکی شہریوں کو کرونا سے بچانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت نے ابتدائی 100 روز میں 10 کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا وعدہ کیا تھا اور آج 20 کروڑ امریکی ویکسین لگوا چکے ہیں۔
صدر نے بتایا کہ اس وقت ملک کے ہر شہری کو اپنی رہائش سے پانچ میل کے اندر ویکسین دستیاب ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو ویکسین فراہم کر رہے ہیں اور سیکڑوں ہزاروں ملازمتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایسے نتائج دے رہے ہیں جنہیں لوگ اپنی زندگیوں میں محسوس کر سکتے ہیں۔ ہم مواقع پیدا کرنے کے لیے دروازے کھول رہے ہیں۔ شفافیت اور انصاف کو یقینی بنا رہے ہیں۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں کرونا ریلیف پیکج کا بھی تفصیلی ذکر کیا اور بتایا کہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پیکج نے کس طرح مشکل حالات میں شہریوں کو ریلیف فراہم کیا ہے اور یقینی بنایا ہے کہ بچوں کے لیے کھانا دستیاب ہو۔
صدر بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی صدر کے پہلے 100 دنوں میں معیشت میں اس قدر بہتری کے آثار نہیں آئے ہوں گے جو ان کے دور میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
انہوں نے آئی ایم ایف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور گزشتہ چار دہائیوں میں شرحِ نمو سب سے زیادہ ہے۔
سالانہ چار لاکھ سے کم آمدن والوں پر ٹیکس نہ بڑھانے کا اعلان
صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ ٹیکس چھوٹ ملکی خسارے کی قیمت پر نہیں دینا چاہیں گے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کا ایک فی صد امیر ترین طبقہ اپنا 'جائز حصہ' ادا کرے۔
صدر نے بتایا کہ جب کرونا وبا کے دنوں میں دو کروڑ افراد بے روزگار ہو رہے تھے تو 600 سے زائد افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے کھربوں ڈالر کمائے۔ صدر نے کچھ رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 55 کارپوریشنز ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتیں اور اربوں ڈالر منافع کماتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایک سال میں چار لاکھ ڈالر سے زیادہ کماتے ہیں انہیں زیادہ ٹیکس ادا کرنا چاہیے جب کہ چار لاکھ تک سالانہ آمدنی والوں پر کسی قسم کا کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
کرونا بحران کے شکار امریکیوں کی مالی مدد کے لیے بائیڈن حکومت کے دو سالہ منصوبے میں 19 کھرب ڈالرز کی ادائیگی شامل ہے جس میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے 225 ارب ڈالر اور خاندانوں کی مدد کے لیے فی کس ماہانہ 250 ڈالر کی ادائیگی شامل ہیں۔
بائیڈن کا امریکن فیملیز پلان
صدر نے کانگریس سے خطاب کے دوران 'امریکن فیملیز پلان' بھی متعارف کرایا جو ان کے بقول دنیا بالخصوص چین جیسے ملکوں کے ساتھ صحت مند تقابل کے لیے ضروری ہے جس کے تحت امریکی نوجوانوں کو مزید معیاری تعلیم دی جائے گی۔
فیملی پلان میں صدر بائیڈن نے بچوں کی پیدائش کے موقع پر 12 ہفتوں کی تنخواہ سمیت چھٹی کا بھی اعلان کیا۔ صدر نے چھ سال سے زیادہ عمر کے بچوں والے کنبے کے لیے ٹیکس چھوٹ کی بھی تجویز دی۔
'امریکن فیملیز پلان' کی تفصیل پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس اہم قانون سازی کو کانگریس سے منظور کرانا چاہتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے 'افورڈ ایبل کیئر ایکٹ' کے تحت لاکھوں افراد کے پریمیم میں کمی کا بھی اعادہ کیا۔ انہوں نے اس پروگرام کو کم آمدن والے لاکھوں افراد کے لیے لائف لائن قرار دیا اور کہا کہ عالمی وبا نے اس پروگرام کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔
صدر بائیڈن نے ادویات کی قیمتوں کا بھی اپنے خطاب میں ذکر کیا اور کہا کہ دنیا بھر میں تجویز کردہ ادویات کی قیمت امریکہ میں باقی ملکوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ صدر نے کانگریس پر زور دیا کہ اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔
صدر بائیڈن کے 'کلین انرجی' منصوبے
صدر بائیڈن نے ملک میں معیشت کی بحالی کے لیے 'کلین انرجی' کے منصوبوں پر تفصیل سے بات کی اور کہا کہ اس سے امریکہ نہ صرف موسمیاتی تغیر کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا بلکہ اس شعبوں میں بڑے پیمانے پر ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔
انہوں نے انرجی ایفیشنٹ کاروں اور بیٹریوں کے بنانے پر زور دیا اور کہا کہ اب کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ میں ٹربائنز اور بیٹریاں نہ بنائی جا سکیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ امریکہ کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کریں گے لیکن وہ چاہیں گے کہ امریکہ کے مفاد کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
صدر بائیڈن نے مصنوعی ذہانت کی اہمیت بھی اجاگر کی اور اس ضمن میں بجٹ بڑھانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی، کمپیوٹر چپس، کلین انرجی، بیٹریز پر رقوم خرچ کرنا ہوں گی۔ ان کے بقول تیز رفتار انٹرنیٹ سے جی پی ایس تک قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے سرطان اور ذیابیطس جیسے امراض پر تحقیق کرنے کے لیے رقم خرچ کرنے پر بھی زور دیا۔ صدر نے اپنے منصوبوں کے لیے کانگریس سے تعاون کی درخواست بھی کی۔
خارجہ امور
صدر جو بائیڈن نے کانگریس سے خطاب کے دوران چین کے صدر ژی جن پنگ کے ساتھ رابطوں کی بھی تفصیل سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ چین کے ساتھ صحت مند مقابلے کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن وہ انٹلکچوئل پراپرٹی سمیت تمام اہم معاملات پر امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔
افغانستان سے متعلق صدر نے بتایا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔ دنیا کی اس طویل ترین جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا وقت آ گیا ہے۔ ان کے بقول اس وقت افغانستان میں امریکہ کے ایسے فوجی اہلکار بھی خدمات انجام دے رہے ہیں جو 2001 میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے اور نائن الیون کے ذمہ دار اسامہ بن لادن کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔
ان کے بقول دہشت گردی آج بھی ایک چیلنج ہے لیکن افغانستان سے آگے نکل کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یمن، صومالیہ اور دیگر کئی ممالک ہیں جہاں داعش اور القاعدہ موجود ہے۔
صدر بائیڈن نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ایک خطرہ قرار دیا اور کہا کہ وہ اس ضمن میں سفارتی اور دفاعی تمام چینلز استعمال کریں گے۔
انسانی حقوق پر گفتگو بھی صدر بائیڈن کے پہلے خطاب کا حصہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی ذمہ دار امریکی صدر خاموش نہیں رہ سکتا جب انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ امریکہ انفرادیت رکھتا ہے کہ ہم برابری کے امریکی تصور پر قائم ہیں۔
'گن وائلنس پر کنٹرول کے لیے مل کر قانون سازی کریں'
امریکہ میں گزشتہ برس ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے نسل پرستی کے خاتمے پر زور دیا اور وائٹ سپریمیسی کی حوصلہ شکنی کی۔ صدر نے کہا کہ ملک میں پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے کانگریس کو کردار ادا کرنا ہو گا۔
انہوں نے ملک میں گن وائلنس کے حالیہ واقعات پر بھی تفصیل سے بات کی اور کہا کہ دونوں جماعتیں (ڈیموکریٹ اور ری پبلکن) اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے مل کر قانون سازی پر اتفاق کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہر ماہ اوسطاً 50 خواتین امریکہ میں گن وائلنس کا شکار ہو جاتی ہیں اور قتل عام کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے گھوسٹ گنز (ایسا اسلحہ جو گھریلو ساختہ ہے اور اس پر کوئی سیریل نمبر نہیں ہوتا) پر بھی کنٹرول کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ کوئی بھی شخص 30 منٹ کے اندر اندر یہ اسلحہ خرید سکتا ہے۔
صدر نے جارجیا اور کولوراڈو ریاستوں میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ 250 امریکی گن وائلنس کی نذر ہوئے ہیں جب کہ ماس شوٹنگ یا قتلِ عام میں کئی جانوں کا زیاں ہو چکا ہے۔
صدر نے کہا کہ اگر ہم مل کر کام کریں گے تو کوئی ہمیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتا۔
صدر بائیڈن کا کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے یہ پہلا خطاب ایک گھنٹے پانچ منٹ پر مشتمل تھا۔
ری پبلکن پارٹی کی طرف سے جوابی تقریر
امریکہ میں سیاسی روایت ہے کہ صدر کے کانگریس سے خطاب کے بعد اپوزیشن جماعت کی طرف سے بھی فوری طور پر ردِ عمل دیا جاتا ہے۔
بدھ کی شب صدر بائیڈن کے خطاب کے فوراً بعد ری پبلکن سینیٹر ٹم اسکاٹ نے پارٹی کی جانب سے ردِ عمل دیا جو ری پبلکن پارٹی کے واحد سیاہ فام سینیٹر ہیں۔
ٹم اسکاٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ صدر بائیڈن ایک بھلے انسان دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں تقسیم کرنے والی ہیں۔
سینیٹر اسکاٹ نے کہا کہ صدر بائیڈن کی تقریر خوبصورت لفظوں سے بھرپور تھی۔ لیکن ہماری قوم کو خالی ہمددریوں کی نہیں پالیسیوں اور پیش رفت کی ضرورت ہے جو ہمیں قریب لا سکے۔
ان کے بقول صدر بائیڈن کے اقدامات اور ان کی جماعت قوم کو مزید تقسیم کر رہے ہیں۔
اسکاٹ نے کہا کہ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں ایک سال میں پانچ کرونا ریلیف پیکیجز کی دو جماعتی سطح پر منظوری دی گئی لیکن بائیڈن کے دور میں کانگریس نے دو ٹریلین ڈالر کا پیکچ منظور کر لیا ہے جس میں ایک ری پبلکن ووٹ بھی شامل نہیں۔
’افغان حکومت بائیڈن کے فیصلے کا احترام کرتی ہے‘
افغانستان کے صدارتی دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت افغانستان سے امریکہ کی فوج کے واپس بلانے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے کا احترام کرتی ہے۔
نائب صدارتی ترجمان محمد عامری نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے امریکہ کی امداد جاری رہے گی اور افغان فورسز اپنی سر زمین کا دفاع کر سکتی ہیں۔ افغانستان چیلنجز کا مقابلہ کرے گا۔
بائیڈن کے خطاب کے موقع پر ایوان میں کتنے لوگ تھے؟
کرونا وائرس کی وجہ سے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کو محدود رکھا گیا تھا۔ اس لیے صدر بائیڈن کا یہ خطاب سابقہ صدارتی تقاریر سے مختلف نظر آیا۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں کے 535 ارکان میں سے محض 200 کو مشترکہ اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا اور قانون سازوں کو مہمان ساتھ لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
بائیڈن کابینہ کے ارکان کی اکثریت نے اپنے گھروں سے ہی صدر کا خطاب سنا۔
حکومت کی طرف سے صرف وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن ہی کانگریس اجلاس میں شریک تھے جب کہ عدلیہ کی نمائندگی چیف جسٹس جان رابرٹس نے کی۔
ایوان کے چیمبر کے ضابطے کی پابندی کے عین مطابق ہر رکن نے ماسک پہن رکھا تھا۔ چیمبر کے مرکزی حصے سے روسٹرم تک کی روایتی آمد کے دوران صدر بائیڈن نے ماسک پہنے رکھا تاہم خطاب کرتے وقت انہوں نے ماسک اتار دیا تھا۔